كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا یَحْیَ بْنُ آدَمَ، وَاِسْرَائِیْلُ، عَنْ اَبِیْ یَحْیَی الثِّقَاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخِذَ رَجُلٍ، فَقَالَ لَهٗ: غَطِّ فَخِذَكَ فَاِنَّ فَخِذَ الرَّجُلِ مِنْ عَوْرَتِهٖ
لباس اور زينت اختیار کرنے کا بیان
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی ران دیکھی تو اسے فرمایا: ’’اپنی ران کو ڈھانپو، کیونکہ آدمی کی ران اس کے ستر میں سے ہے۔‘‘
تشریح :
بخاری شریف میں ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ (بخاري، کتاب الصلاة قبل الحدیث، رقم : ۳۷۱)
پہلی روایت قول ہے دوسری فعل، جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے، وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے مگر ناف اور گھٹنا ستر میں داخل نہیں ہیں ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: اکثر علماء کرام اس کے قائل ہیں کہ ران شرمگاہ میں داخل ہے۔
امام احمد اور امام مالک ' کا موقف ہے کہ قبل اور دبر شرمگاہ میں داخل ہے۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ (نیل الاوطار: ۲؍ ۶۲)
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں شامل ہے۔ لہٰذا کھیل وغیرہ کے وقت لمبا جانگیا پہنا جائے۔
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الحمام، باب النهی عن التعری، رقم: ۴۰۱۴ قال الالباني : صحیح۔ سنن ترمذي، رقم: ۲۷۹۶۔ مسند احمد: ۱؍ ۲۷۵۔
بخاری شریف میں ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ (بخاري، کتاب الصلاة قبل الحدیث، رقم : ۳۷۱)
پہلی روایت قول ہے دوسری فعل، جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے، وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے مگر ناف اور گھٹنا ستر میں داخل نہیں ہیں ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: اکثر علماء کرام اس کے قائل ہیں کہ ران شرمگاہ میں داخل ہے۔
امام احمد اور امام مالک ' کا موقف ہے کہ قبل اور دبر شرمگاہ میں داخل ہے۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ (نیل الاوطار: ۲؍ ۶۲)
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں شامل ہے۔ لہٰذا کھیل وغیرہ کے وقت لمبا جانگیا پہنا جائے۔