كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَلَا تَمَسُّ طِيبًا))
لباس اور زينت اختیار کرنے کا بیان
باب
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز عشاء پڑھنے آئے تو وہ خوشبو نہ لگائے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جو عورت مسجد میں جا کر نماز پڑھنا چاہتی ہے، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خوشبو لگا کر نہ جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے خوشبو کی دھونی لی، سو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔‘‘ (سنن ابوداو، کتاب الترجل، رقم : ۴۱۷۵)
بلکہ ایسی عورت کی نماز ہی قبول نہیں ہوتی جو خوشبو لگا کر مسجد کی طرف جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک عورت ملی جو خوشبو لگا کر مسجد کی طرف جار ہی تھی۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبار کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے کہا مسجد میں ، فرمایا: اسی لیے خوشبو لگائی ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں ، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’جو عورت خوشبو لگا کر مسجد کی طرف چلے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک غسل نہ کرے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، ابواب الفتن، رقم : ۴۰۰۲)
جب مسجد کی طرف جاتے ہوئے خوشبو لگانا جائز نہیں تو بازار کی طرف جاتے ہوئے خوشبو لگانا بالاولیٰ منع ہے۔ بلکہ جو خوشبو لگا کر عورتیں نکلتی ہیں ۔ حدیث میں ان عورتوں کو زانیہ بدکارہ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے :((اَیُّمَا امْرَأَةٍ اِذَا اسْتَعْطَرَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ عَلٰی قَوْمٍ فَیُوْجَدُ رِیْحُهَا فَهِیَ زَانِیَةٌ))
’’جو عورت گھر سے خوشبو لگا کر نکلے اور اس سے خوشبو آرہی ہو تو وہ زانیہ ہے۔‘‘ ( سنن نسائي، کتاب الزاینة، باب ما یکره للنساء من الطیب، رقم : ۵۱۲۶)
تخریج :
مسلم، کتاب الصلاة، باب خروج النساء الی المساجد الخ، رقم: ۴۴۳، ۴۴۔ سنن نسائي، کتاب الزینة، باب النهی للمراة ان تشهد الصلاة الخ، رقم: ۵۱۲۹۔ مسند احمد: ۶؍ ۳۶۳۔ صحیح ابن خزیمة، رقم: ۱۶۸۰۔ صحیح الجامع الصغیر رقم: ۶۳۴۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جو عورت مسجد میں جا کر نماز پڑھنا چاہتی ہے، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خوشبو لگا کر نہ جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے خوشبو کی دھونی لی، سو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔‘‘ (سنن ابوداو، کتاب الترجل، رقم : ۴۱۷۵)
بلکہ ایسی عورت کی نماز ہی قبول نہیں ہوتی جو خوشبو لگا کر مسجد کی طرف جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک عورت ملی جو خوشبو لگا کر مسجد کی طرف جار ہی تھی۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبار کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے کہا مسجد میں ، فرمایا: اسی لیے خوشبو لگائی ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں ، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’جو عورت خوشبو لگا کر مسجد کی طرف چلے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک غسل نہ کرے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، ابواب الفتن، رقم : ۴۰۰۲)
جب مسجد کی طرف جاتے ہوئے خوشبو لگانا جائز نہیں تو بازار کی طرف جاتے ہوئے خوشبو لگانا بالاولیٰ منع ہے۔ بلکہ جو خوشبو لگا کر عورتیں نکلتی ہیں ۔ حدیث میں ان عورتوں کو زانیہ بدکارہ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے :((اَیُّمَا امْرَأَةٍ اِذَا اسْتَعْطَرَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ عَلٰی قَوْمٍ فَیُوْجَدُ رِیْحُهَا فَهِیَ زَانِیَةٌ))
’’جو عورت گھر سے خوشبو لگا کر نکلے اور اس سے خوشبو آرہی ہو تو وہ زانیہ ہے۔‘‘ ( سنن نسائي، کتاب الزاینة، باب ما یکره للنساء من الطیب، رقم : ۵۱۲۶)