كِتَابُ المَرْضَى وَ الطِّبِّ بَابٌ اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عَلَاقَةَ اَنَّهٗ سَمِعَهٗ مِنْ اُسَامَةَ بْنِ شَرِیْكٍ، وَشَهِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْاَعْرَابُ یَسْأَلُوْنَهٗ: ہَلْ عَلَیْنَا جُنَاحٌ فِیْ کَذَا؟ هَلْ عَلَیْنَا جُنَاحٌ فِیْ کَذَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِبَادَ اللّٰهِ، رَفَعَ اللّٰهُ الْحَرَجَ، اِلَّا اِمْرَئًا اِقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ اَخِیْهِ شَیْئًا، فَذٰلِكَ الَّذِیْ خَرَجَ وَهَلَكَ۔ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، اَنَتَدَاوَی؟ قَالَ: تَدَاوُوْا، فَاِنَّ اللّٰهَ لَمْ یَنْزِلْ دَاءً اِلَّا اَنْزَلَ لَهٗ دَوَاءً اِلَّا الْمَوْتَ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَمَا اَفْضَلُ مَا اُعْطِیَ الْعَبْدُ؟ فَقَالَ: خُلُقٌ حَسَنٌ۔
مريضوں اور ان کے علاج کا بیان
باب
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کر رہے تھے میں اس وقت موجود تھا: کیا فلاں کام کرنے میں ہم پر کوئی حرج ہے؟ کیا فلاں کام کرنے میں ہم پر کوئی گناہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے بندو! اللہ نے حرج؍ تنگی کو دور کر دیا ہے مگر جس نے اپنے بھائی کی عزت میں سے کوئی حصہ کاٹ لیا، پس یہی شخص ہے جس نے گناہ کیا اور وہ ہلاک ہوا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم علاج معالجہ کر لیا کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علاج معالجہ کیا کرو، اللہ نے جو بھی بیماری اتاری، اس کے لیے دوائی بھی اتاری ہے، سوائے موت کے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بندے کو سب سے بہتر کیا چیز عطا ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا اخلاق۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق ثابت ہوتا ہے۔ علماء کو بھی چاہیے کہ جاہل، کم علم لوگ اگر عجیب وغریب سوال کریں تو خندہ پیشانی سے برداشت کریں ۔ اور نہایت ہی اچھے انداز سے ان کے سوالوں کا جواب دیں ۔ معلوم ہوا دین اسلام کے احکامات آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں ۔
معلوم ہوا کسی کو اچھا اخلاق مل جانا بہت بڑا اللہ ذوالجلال کا انعام ہے، کیونکہ ایسا خوش نصیب قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہوگا، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریبی وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہوں گے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۷۹۱)
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الطب، باب الرجل یتداوی، رقم: ۳۸۵۵۔ سنن ترمذي، ابواب الطب، باب ماجاء في الدواء والحث علیه، رقم: ۲۰۳۸۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۴۳۶۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۴؍ ۲۷۸۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۶۰۶۱۔
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق ثابت ہوتا ہے۔ علماء کو بھی چاہیے کہ جاہل، کم علم لوگ اگر عجیب وغریب سوال کریں تو خندہ پیشانی سے برداشت کریں ۔ اور نہایت ہی اچھے انداز سے ان کے سوالوں کا جواب دیں ۔ معلوم ہوا دین اسلام کے احکامات آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں ۔
معلوم ہوا کسی کو اچھا اخلاق مل جانا بہت بڑا اللہ ذوالجلال کا انعام ہے، کیونکہ ایسا خوش نصیب قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہوگا، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریبی وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہوں گے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۷۹۱)