مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 684

كِتَابُ المَرْضَى وَ الطِّبِّ بَابٌ اَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی، نَا طَلْحَةَ،ُ عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّهٗ قَالَ: اَیُّهَا النَّاسُ: تَدَاوُوْا، فَاِنَّ اللّٰهَ لَمْ یَخْلُقْ دَاءً اِلَّا خَلَقَ لَهٗ شِفَائًا، اِلَّا السَّامَ وَالسَّامُ: اَلْمَوْتُ۔

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 684

مريضوں اور ان کے علاج کا بیان باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! علاج معالجہ کیا کرو، کیونکہ اللہ نے جو بھی بیماری پیدا کی تو اس کے لیے شفا بھی پیدا فرمائی ہے، سوائے ’’السام‘‘ کے اور ’’السام‘‘ سے مراد موت ہے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بیماری کا علاج کروانا درست ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروانے کی ترغیب دی ہے اور علاج کروانا توکل کے منافی نہیں ، بلکہ مسنون عمل ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسباب اور مسببات کا ثبوت موجود ہے۔ اور ان کا انکار کرنے والے پر رد اور علاج معالجہ کا حکم ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بھوک وپیاس اور گرمی وسردی کو ان اضداد سے دور کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ (تیسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید، ص:۱۱۱) سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیمار کی تیمار داری کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: تم لوگ اس کے لیے کوئی طبیب کیوں نہیں بلاتے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھی ہم کو یہ حکم دے رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو بیماری اتاری ہے، اس کی دوا بھی نازل کی ہے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۲۸۷۳) یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ آگے علاج کرنے والے کو سمجھ آئے یا نہ آئے، جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو بیماری نازل کی اس کی دوا بھی اتاری، کسی کو اس کا علم ہوگیا اور کسی کو نہ ہوسکا۔ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۴۵۱) البتہ موت اٹل حقیقت اور لا علاج مرض ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الطب، باب ما انزل الله داء الا انزل له شفاء، رقم: ۵۶۷۸۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۴۳۹۔ مستدرك حاکم: ۴؍ ۴۰۱۔ سنن کبری بیهقي: ۹؍ ۳۴۳۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بیماری کا علاج کروانا درست ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروانے کی ترغیب دی ہے اور علاج کروانا توکل کے منافی نہیں ، بلکہ مسنون عمل ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسباب اور مسببات کا ثبوت موجود ہے۔ اور ان کا انکار کرنے والے پر رد اور علاج معالجہ کا حکم ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بھوک وپیاس اور گرمی وسردی کو ان اضداد سے دور کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ (تیسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید، ص:۱۱۱) سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیمار کی تیمار داری کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: تم لوگ اس کے لیے کوئی طبیب کیوں نہیں بلاتے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھی ہم کو یہ حکم دے رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو بیماری اتاری ہے، اس کی دوا بھی نازل کی ہے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۲۸۷۳) یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ آگے علاج کرنے والے کو سمجھ آئے یا نہ آئے، جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو بیماری نازل کی اس کی دوا بھی اتاری، کسی کو اس کا علم ہوگیا اور کسی کو نہ ہوسکا۔ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۴۵۱) البتہ موت اٹل حقیقت اور لا علاج مرض ہے۔