كِتَابُ المَرْضَى وَ الطِّبِّ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنِي مِسْعَرٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ قَالَ: ذَهَبَتْ بِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَنَعَتْ مُرَيْقَةً، فَأَصَابَتْ بَدَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ قَالَتْ أُمِّي: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ))
مريضوں اور ان کے علاج کا بیان
باب
محمد بن حاطب نے بیان کیا: میری والدہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئیں ، انہوں نے شوربہ بنایا تھا اور وہ میرے بدن پر گر گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو میری والدہ نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی تھی: ’’لوگوں کے رب! بیماری دور فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے شفا عطا فرما، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی بیمار ہوجائے یا کسی کا جسم جل جائے یا کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو ایسے آدمی کی تیمار داری کرنی چاہیے اور اس کے لیے شفا کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ ہی شفا دیتا اور تکلیف دور کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (یونس:۱۰۷) .... ’’اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس تکلیف کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم سے بھلائی کرنا چاہے۔ تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ مریض آدمی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آپہنچا ہو۔
((أَسْاَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیكَ۔)) (صحیح ترمذی، رقم : ۱۶۹۸)
’’میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔‘‘
تخریج :
بخاري، کتاب المرضی، باب دعاء العائد للمریض، رقم: ۵۶۷۵۔ مسلم، کتاب السلام، باب استحباب رقیة الخ، رقم: ۲۱۹۱۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۸۹۰۔ سنن ترمذي، رقم: ۹۷۳۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۵۲۰۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی بیمار ہوجائے یا کسی کا جسم جل جائے یا کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو ایسے آدمی کی تیمار داری کرنی چاہیے اور اس کے لیے شفا کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ ہی شفا دیتا اور تکلیف دور کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (یونس:۱۰۷) .... ’’اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس تکلیف کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم سے بھلائی کرنا چاہے۔ تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ مریض آدمی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آپہنچا ہو۔
((أَسْاَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیكَ۔)) (صحیح ترمذی، رقم : ۱۶۹۸)
’’میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔‘‘