مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 668

كِتَابُ المَرْضَى وَ الطِّبِّ بَابٌ أَخْبَرَنَا الثَّقَفِيُّ، نا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْكَمْأَةُ بَقِيَّةٌ مِنَ الْمَنِّ مَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ)) ، قَالَ خَالِدٌ: وَأُنْبِئْتُ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنَّهُ قَالَ فِيهِ: ((وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ وَفِيهِ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 668

مريضوں اور ان کے علاج کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کھمبی، مَنْ (بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے کھانے) کا بقیہ ہے، اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔‘‘ خالد نے بیان کیا، مجھے شہر بن حوشب کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے اس کے متعلق بتایا: ’’عجوہ (کھجور) جنت میں سے ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے۔‘‘
تشریح : مَنْ اس قدرتی خوراک کا نام ہے جو بنی اسرائیل پر نازل کی گئی تھی، یہ شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ کھمبی کو مَنْ اس لیے فرمایا گیا ہے، کیونکہ مَنْ کی طرح یہ بھی بلا مشقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے بڑا مفید ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس کا مجرد پانی فی الواقع شفاء ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے اور ہمارے زمانے میں بعض نابینا حضرات نے بھی اس کا تجربہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی درست فرما دی۔ اور کہتے ہیں کہ شیخ کمال دمشقی جو حدیث کے استاد ہیں انہوں نے سچے اعتقاد سے کھمبی کا پانی آنکھوں میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی بحال کر دی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ’’زاد المعاد‘‘ میں اس کے بہت سارے فوائد بتائے ہیں ۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ عجوہ کھجور جنت میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھجور کی یہ قسم جنت سے زمین پر آئی جس طرح حجر اسود جنت سے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ اس میں زہر کا تریاق بھی ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے صبح سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اس پر زہر اور جادو کا اثر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (بخاري، کتاب الطب، رقم : ۵۷۶۸۔ ۵۷۶۹) ابن طولون لکھتے ہیں کہ عجوہ مدینہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور ہے جو یمنی سے بڑی اور سیاہی مائل ہے، اس کھجور کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگایا تھا اور شاید یہ اتنے سارے فوائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لگانے کی برکت کی وجہ سے ہیں ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر دو شاخیں رکھیں تھیں جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’شاید یہ ان شاخوں کے خشک ہونے تک عذاب سے بچ جائیں تو یہ عذاب رک جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی وجہ سے تھا۔ ‘‘(المنهل الروی فی الطب النبوی لابن طولون: ۱۹۰) امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: عجوہ کی وجہ سے زہر اور جادو کا اثر نہ کرنا، یہ مدینہ کی کھجور کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت کی وجہ سے ہے، کھجور کی خاصیت نہیں ہے۔ ( فتح الباري: ۱۰؍ ۲۵۰)
تخریج : بخاري، رقم : ۵۷۰۸۔ مسلم، کتاب الاشربة، باب فضل الکماة الخ: رقم : ۲۰۴۹۔ سنن ترمذي، کتاب الطب، باب الکماة والعجوة: رقم:۲۰۶۶، ۲۰۶۸۔ مسند ابي یعلی: رقم:۶۴۰۰۔ مَنْ اس قدرتی خوراک کا نام ہے جو بنی اسرائیل پر نازل کی گئی تھی، یہ شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ کھمبی کو مَنْ اس لیے فرمایا گیا ہے، کیونکہ مَنْ کی طرح یہ بھی بلا مشقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے بڑا مفید ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس کا مجرد پانی فی الواقع شفاء ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے اور ہمارے زمانے میں بعض نابینا حضرات نے بھی اس کا تجربہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی درست فرما دی۔ اور کہتے ہیں کہ شیخ کمال دمشقی جو حدیث کے استاد ہیں انہوں نے سچے اعتقاد سے کھمبی کا پانی آنکھوں میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی بحال کر دی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ’’زاد المعاد‘‘ میں اس کے بہت سارے فوائد بتائے ہیں ۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ عجوہ کھجور جنت میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھجور کی یہ قسم جنت سے زمین پر آئی جس طرح حجر اسود جنت سے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ اس میں زہر کا تریاق بھی ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے صبح سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اس پر زہر اور جادو کا اثر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (بخاري، کتاب الطب، رقم : ۵۷۶۸۔ ۵۷۶۹) ابن طولون لکھتے ہیں کہ عجوہ مدینہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور ہے جو یمنی سے بڑی اور سیاہی مائل ہے، اس کھجور کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگایا تھا اور شاید یہ اتنے سارے فوائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لگانے کی برکت کی وجہ سے ہیں ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر دو شاخیں رکھیں تھیں جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’شاید یہ ان شاخوں کے خشک ہونے تک عذاب سے بچ جائیں تو یہ عذاب رک جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی وجہ سے تھا۔ ‘‘(المنهل الروی فی الطب النبوی لابن طولون: ۱۹۰) امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: عجوہ کی وجہ سے زہر اور جادو کا اثر نہ کرنا، یہ مدینہ کی کھجور کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت کی وجہ سے ہے، کھجور کی خاصیت نہیں ہے۔ ( فتح الباري: ۱۰؍ ۲۵۰)