كِتَابُ الأَضَاحِيِّ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ فَشَرِبَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ فَشَرِبُوا، فَمَرَّ الْإِنَاءُ عَلَى قَوْمٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّهُ يَصُومُ كُلَّ يَوْمٍ وَلَا يُفْطِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا صَامَ وَلَا آلَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ)) قَالَ إِسْحَاقُ: قَالَ جَرِيرٌ: وَلَا آلَ يَعْنِي: وَلَا رَجَعَ
قربانی کے احکام و مسائل
باب
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہم ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، تو پانی کا ایک برتن آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر انہیں حکم فرمایا تو انہوں نے پیا، وہ برتن تمام حاضرین کے پاس پہنچایا گیا، حاضرین میں سے ایک آدمی نے کہا: میں روزہ دار ہوں ۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا: یہ روزانہ روزہ رکھتا ہے بالکل ناغہ نہیں کرتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو (شرعی طور پر) وہ روزہ رکھتا ہے نہ رجوع کرتا ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ہمیشہ روزہ رکھنا خلاف سنت ہے۔ حدیث میں موجود ہے: ((لَا صَامَ وَلَا آلَ مَنْ صَامَ الْاَبَدَ)) .... ’’نہ اس کو روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے نہ اس کو چھوڑنے کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور جو میری سنت سے بے رغبتی اختیار کرے گا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ (بخاري، کتاب النکاح، رقم : ۵۰۶۳)
سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا، ان کی بار بار کی درخواست پر زیادہ سے زیادہ جو اجازت دی وہ سیّدنا داود علیہ السلام والے روزے کی تھے، یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔ جب سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں ، یعنی اس سے زیادہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((لَا اَفْضَلَ مِنْ ذٰٰلِكَ)) ’’اس سے کوئی افضل نہیں ۔ ‘‘ (بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۶۷)
معلوم ہوا کہ جو زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنا چاہے تو وہ ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھے، یہی سب سے افضل روزہ ہے۔ لیکن جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بڑھاپے میں کمزور ہوگئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کرلیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔ (مسلم، کتاب الصیام، رقم : ۱۱۵۹)
تخریج :
بخاري، کتاب الصوم، باب حق الاهل فی الصوم، رقم: ۱۹۷۷۔ مسلم، کتاب الصیام، باب النهی عن صوم الدهر الخ، رقم: ۱۱۵۹۔ سنن نسائي، رقم: ۲۳۷۳۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۱۷۰۶۔ مسند احمد: ۴؍۴۲۶۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ہمیشہ روزہ رکھنا خلاف سنت ہے۔ حدیث میں موجود ہے: ((لَا صَامَ وَلَا آلَ مَنْ صَامَ الْاَبَدَ)) .... ’’نہ اس کو روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے نہ اس کو چھوڑنے کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور جو میری سنت سے بے رغبتی اختیار کرے گا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ (بخاري، کتاب النکاح، رقم : ۵۰۶۳)
سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا، ان کی بار بار کی درخواست پر زیادہ سے زیادہ جو اجازت دی وہ سیّدنا داود علیہ السلام والے روزے کی تھے، یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔ جب سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں ، یعنی اس سے زیادہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((لَا اَفْضَلَ مِنْ ذٰٰلِكَ)) ’’اس سے کوئی افضل نہیں ۔ ‘‘ (بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۶۷)
معلوم ہوا کہ جو زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنا چاہے تو وہ ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھے، یہی سب سے افضل روزہ ہے۔ لیکن جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بڑھاپے میں کمزور ہوگئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کرلیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔ (مسلم، کتاب الصیام، رقم : ۱۱۵۹)