كِتَابُ الأَضَاحِيِّ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ مَيْسَرَةَ بْنِ أَبِي خُثَيْمٍ، عَنْ أُمِّ بَنِي كُرْزٍ الْكَعْبِيِّينَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْعَقِيقَةِ: ((عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ)) , فَقُلْتُ لَهُ - يَعْنِي عَطَاءً -: فَمَا الْمُكَافِئَتَانِ؟ قَالَ: مِثْلَانِ ذُكْرَانُهَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ إِنَاثِهَا رَأْيًا مِنْهُ
قربانی کے احکام و مسائل
باب
سیدہ ام بنی کرز کعبیین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: میں نے عقیقے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’لڑکے کی طرف سے برابر برابر (ایک جیسی) دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری (ذبح کی جائے گی)۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بچی یا بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔ کیونکہ اولاد اللہ ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
شیخ عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بچے کا عقیقہ ایسی قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور نعمت اولاد پر اس کا شکر ادا کرنے کے لیے جاتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ اسلامیة: ۲؍ ۳۲۴)
سنن ابن ماجہ میں ہے : سیّدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر لڑکا اپنے عقیقے کے بدلے گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقے کا جانور) ذبح کیا جائے اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، ابواب الذبائح، رقم : ۳۱۶۵)
لیکن اگر طاقت نہ ہو تو اس سے یہ عبادت یعنی عقیقہ کی ادائیگی ساقط ہے جیسا کہ شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت فقیر ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے، کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز ہونے کی وجہ سے عبادات ساقط ہوجاتی ہیں ۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۲؍ ۳۲۶)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا نر، مادہ دونوں ہی جائز ہیں ۔ اور عقیقہ کے جانور کے لیے قربانی کے جانور کی طرح شرائط ضروری نہیں ہیں ، جیسا کہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں : کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے (قربانی والی) شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی: ۵؍۹۹)
حدیث میں لفظ (مکافتان) ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا کہتے تھے کہ (مکافتان) کے معنی ہیں : دونوں بکریاں برابر برابر ہوں یا قریب قریب ہوں ۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۸۳۴)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں مختلف اقوال پیش کیے ہیں :
(۱).... ہم عمر اور ہم جنس۔ (۲).... ذبح ہونے میں برابر (یعنی دونوں ایک وقت میں ذبح ہوں یہ نہ ہو کہ ایک صبح، دوسرا دوپہر یا شام) (۳).... قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے قول کو اچھا قرار دیا ہے۔ ( فتح الباري: ۹؍ ۷۳۳)
تخریج :
انظر ما قبله : ۵۵۷۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بچی یا بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔ کیونکہ اولاد اللہ ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
شیخ عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بچے کا عقیقہ ایسی قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور نعمت اولاد پر اس کا شکر ادا کرنے کے لیے جاتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ اسلامیة: ۲؍ ۳۲۴)
سنن ابن ماجہ میں ہے : سیّدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر لڑکا اپنے عقیقے کے بدلے گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقے کا جانور) ذبح کیا جائے اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، ابواب الذبائح، رقم : ۳۱۶۵)
لیکن اگر طاقت نہ ہو تو اس سے یہ عبادت یعنی عقیقہ کی ادائیگی ساقط ہے جیسا کہ شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت فقیر ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے، کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز ہونے کی وجہ سے عبادات ساقط ہوجاتی ہیں ۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۲؍ ۳۲۶)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا نر، مادہ دونوں ہی جائز ہیں ۔ اور عقیقہ کے جانور کے لیے قربانی کے جانور کی طرح شرائط ضروری نہیں ہیں ، جیسا کہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں : کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے (قربانی والی) شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی: ۵؍۹۹)
حدیث میں لفظ (مکافتان) ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا کہتے تھے کہ (مکافتان) کے معنی ہیں : دونوں بکریاں برابر برابر ہوں یا قریب قریب ہوں ۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۸۳۴)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں مختلف اقوال پیش کیے ہیں :
(۱).... ہم عمر اور ہم جنس۔ (۲).... ذبح ہونے میں برابر (یعنی دونوں ایک وقت میں ذبح ہوں یہ نہ ہو کہ ایک صبح، دوسرا دوپہر یا شام) (۳).... قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے قول کو اچھا قرار دیا ہے۔ ( فتح الباري: ۹؍ ۷۳۳)