مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 650

كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ اَخْبَرَنَا یَزِیْدُ بْنُ هَارُوْنَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابِنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهٗ زَیْنَبَ عَلَی اَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیْعِ زَوْجِهَا بَعْدَ سَنَتَیْنِ بِالنِّکَاحِ الْاَوَّلِ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 650

نكاح و طلاق کے احکام و مسائل باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نکاح اول کے ساتھ دو سال بعد لوٹایا تھا۔
تشریح : مذکورہ روایت کو بعض محققین نے ضعیف کہا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے دو سال کے ذکر کے علاوہ باقی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ معلوم ہوا اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے مسلمان ہوجائے تو وہ آپس میں تعلقات قائم نہیں کرسکتے، اگر عورت ایک حیض کے بعد دوسرے کسی مرد سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ (بخاري، کتاب الطلاق، رقم : ۵۲۸۲) لیکن اگر پہلے خاوند کا انتظار کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے۔ اور جب وہ مسلمان ہوجائے تو زمانہ کفر میں جو نکاح تھا وہ برقرار رہے گا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : احادیث میں تو کہیں عدت کا اعتبار مذکور نہیں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون سے دریافت کیا کہ کیا اس کی عدت ختم ہوچکی ہے یا نہیں ؟ ہمارے علم میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں جس نے اسلام لانے کی وجہ سے لازماً تجدید نکاح کیا ہو، بلکہ دونوں میں جدائی ہوگی اور اس خاتون کا دوسرے مرد سے نکاح ہوجائے گا یا پھر دونوں کا (پہلا) نکاح برقرار رہے گا۔ خواہ عورت پہلے اسلام لائی ہو یا مرد، اور رہا جدائی کی تکمیل اور عدت کا لحاظ تو ہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے بھی فیصلہ فرمایا ہو، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بکثرت مرد اور ان کی بیویوں نے اسلام قبول کیا۔
تخریج : سنن ترمذي، ابواب النکاح، باب ماجاء في الزوجین المشرکین یسلم احدہما، رقم: ۱۱۴۳۔ سنن ابن ماجة، کتاب النکاح، باب الزوجین یسلم احدهما قبل الاخر، رقم: ۲۰۰۹۔ مسند احمد: ۱؍ ۲۱۷۔ مذکورہ روایت کو بعض محققین نے ضعیف کہا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے دو سال کے ذکر کے علاوہ باقی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ معلوم ہوا اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے مسلمان ہوجائے تو وہ آپس میں تعلقات قائم نہیں کرسکتے، اگر عورت ایک حیض کے بعد دوسرے کسی مرد سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ (بخاري، کتاب الطلاق، رقم : ۵۲۸۲) لیکن اگر پہلے خاوند کا انتظار کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے۔ اور جب وہ مسلمان ہوجائے تو زمانہ کفر میں جو نکاح تھا وہ برقرار رہے گا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : احادیث میں تو کہیں عدت کا اعتبار مذکور نہیں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون سے دریافت کیا کہ کیا اس کی عدت ختم ہوچکی ہے یا نہیں ؟ ہمارے علم میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں جس نے اسلام لانے کی وجہ سے لازماً تجدید نکاح کیا ہو، بلکہ دونوں میں جدائی ہوگی اور اس خاتون کا دوسرے مرد سے نکاح ہوجائے گا یا پھر دونوں کا (پہلا) نکاح برقرار رہے گا۔ خواہ عورت پہلے اسلام لائی ہو یا مرد، اور رہا جدائی کی تکمیل اور عدت کا لحاظ تو ہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے بھی فیصلہ فرمایا ہو، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بکثرت مرد اور ان کی بیویوں نے اسلام قبول کیا۔