مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 630

كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ حَدَّثَنَا يَعْلَى , أنا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ وَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى أَهْلِهِ أَبْتَغِي النَّفَقَةَ، فَقَالُوا: لَا نَفَقَةَ لَكِ عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا نَفَقَةَ لَكِ عَلَيْهِمْ، وَعَلَيْكِ الْعِدَّةُ، فَانْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ وَلَا تُفَوِّتِينَا بِنَفْسِكِ)) ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ يَدْخُلُ عَلَيْهَا إِخْوَانُهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينِ الْأَوَّلِينَ، فَانْتَقِلِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَإِذَا وَضَعْتِ ثِيَابَكِ لَمْ يَرَ مِنْكِ شَيْئًا، وَلَا تُفَوِّتِينَا بِنَفْسِكِ)) ، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ خَطَبَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبُوجَهْمٍ الْعَدَوِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَمَا مُعَاوِيَةُ فَعَايِلُ لَا شَيْءَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، فَأَيْنَ أَنْتُمْ مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ)) ، وَكَانَ أَهْلُهَا كَرِهُوا ذَلِكَ، فَقَالَتْ: لَا أَنْكَحُ إِلَّا الَّذِي دَعَانِي إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَحْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 630

نكاح و طلاق کے احکام و مسائل باب سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: میں بنو مخزوم قبیلے کے ایک آدمی کی اہلیہ تھی، اس نے مجھے طلاق بائن دے دی، میں نے اس کے اہل کے ہاں پیغام بھیجا اور میں خرچ کا مطالبہ کرتی تھی، انہوں نے کہا: تمہارا ہمارے ذمے کوئی خرچ نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے لیے ان کے ذمے کوئی خرچ نہیں اور تمہارے ذمے عدت گزارنا ہے، تم ام شریک کے ہاں چلی جاؤ اور اپنے متعلق فیصلہ کرتے وقت ہمیں نظر انداز نہ کرنا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ام شریک کے ہاں تو ان کے شروع میں ہجرت کرنے والے مسلمان بھائی آتے جاتے ہیں ، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں چلی جاؤ کیونکہ وہ نابینا شخص ہے، جب تم کپڑے اتار بھی دو گی تو وہ تمہاری کوئی چیز نہیں دیکھ سکے گا، اور اپنے متعلق فیصلہ کرتے وقت ہمیں نظر انداز نہ کرنا۔‘‘ انہوں (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ) نے کہا: معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم العدوی رضی اللہ عنہما نے مجھے پیغام نکاح بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رہا معاویہ تو وہ ایک محتاج شخص ہے، اس کے پاس کوئی چیز نہیں ، رہا ابو جہم تو وہ اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے اتارتا ہی نہیں (سخت مزاج ہے) اسامہ بن زید( رضی اللہ عنہما ) کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اس (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ) کے گھر والے اسے پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے کہا: میں تو اسی سے نکاح کروں گی جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دعوت دی ہے، پس میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے۔ تو صحیح صحیح بات بتا دینی چاہیے، یہ غیبت نہیں ہے۔ (کیونکہ غیبت کی کچھ جائز صورتیں بھی ہیں ، مثلاً کسی کو خیرخواہانہ مشورہ دینا، مظلوم کی داد رسی وغیرہ) مذکورہ حدیث سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اطاعت رسول کا جذبہ ثابت ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو انہوں نے اپنی پسند سمجھا۔ ایک مسلمان کے اندر یہ چیز بھی ہونی چاہیے کہ ایک طرف والدین، عزیز واقارب کی محبت اور ان کی پسند ہو تو دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہو۔ تو ترجیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو دینی چاہیے۔
تخریج : مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها، رقم: ۱۴۸۰؍ ۳۶۔ سنن ابي داود، کتاب الطلاق، باب في نفقة المبتوتة، رقم: ۲۲۸۴۔ سنن نسائي، رقم: ۳۲۴۵۔ مسند احمد: ۶؍ ۴۱۲۔ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے۔ تو صحیح صحیح بات بتا دینی چاہیے، یہ غیبت نہیں ہے۔ (کیونکہ غیبت کی کچھ جائز صورتیں بھی ہیں ، مثلاً کسی کو خیرخواہانہ مشورہ دینا، مظلوم کی داد رسی وغیرہ) مذکورہ حدیث سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اطاعت رسول کا جذبہ ثابت ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو انہوں نے اپنی پسند سمجھا۔ ایک مسلمان کے اندر یہ چیز بھی ہونی چاہیے کہ ایک طرف والدین، عزیز واقارب کی محبت اور ان کی پسند ہو تو دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہو۔ تو ترجیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو دینی چاہیے۔