كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ كِتَابًا، وَوَضَعَهُ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ كَتَبَ فِيهِ، إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي))
ايمان کابیان
باب
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے ایک تحریر لکھی اور اسے اپنے پاس عرش کے اوپر رکھ لیا، اس میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث میں اللہ ذوالجلال کی رحمت کا ذکر ہے کہ جب کسی کام میں ایک پہلو رحمت کا تقاضا کرتا ہو اور دوسرا غضب کا تو اللہ ذوالجلال کی رحمت کا معاملہ غضب کے پہلو پر غالب آجاتا ہے۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رحمت کے غالب ہونے میں اشارہ ہے رحمت کے مستحقین بھی تعداد کے لحاظ سے غضب کے مستحقین پر غالب رہیں گے رحمت ایسے لوگوں پر ہوگی جن سے نیکیوں کا صدور بھی نہیں ہوا۔ برخلاف اس کے غضب کے کہ وہ ان ہی لوگوں پر ہوگا جن سے گناہوں کا صدور ثابت ہوگا۔ ( فتح الباري: ۶؍ ۲۹۲۔ عمدة القاری: ۱۲؍ ۲۵۸)
اللہ ذوالجلال کی رحمت کا اندازہ اس فرمان رسول سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی ایک سو رحمتیں ہیں جن میں سے ایک رحمت اس نے تمام مخلوقات میں تقسیم کی ہے اسی (رحمت) کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے جنگلی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں۔ اس نے ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھ چھوڑی ہیں۔ جن سے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب التوبۃ، رقم : ۲۷۵۲)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶)
’’میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے اور اس کے مستحق وہ لوگ ہیں جو تقویٰ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ہماری نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
تخریج :
بخاري، کتاب التوحید، رقم: ۸۴۰۴، ۷۵۵۴۔ مسلم، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالیٰ وانها سبقت غضبه، رقم : ۲۷۵۱۔ سنن ترمذي، رقم: ۳۵۴۳۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۵۹۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۶۱۴۴۔
مذکورہ حدیث میں اللہ ذوالجلال کی رحمت کا ذکر ہے کہ جب کسی کام میں ایک پہلو رحمت کا تقاضا کرتا ہو اور دوسرا غضب کا تو اللہ ذوالجلال کی رحمت کا معاملہ غضب کے پہلو پر غالب آجاتا ہے۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رحمت کے غالب ہونے میں اشارہ ہے رحمت کے مستحقین بھی تعداد کے لحاظ سے غضب کے مستحقین پر غالب رہیں گے رحمت ایسے لوگوں پر ہوگی جن سے نیکیوں کا صدور بھی نہیں ہوا۔ برخلاف اس کے غضب کے کہ وہ ان ہی لوگوں پر ہوگا جن سے گناہوں کا صدور ثابت ہوگا۔ ( فتح الباري: ۶؍ ۲۹۲۔ عمدة القاری: ۱۲؍ ۲۵۸)
اللہ ذوالجلال کی رحمت کا اندازہ اس فرمان رسول سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی ایک سو رحمتیں ہیں جن میں سے ایک رحمت اس نے تمام مخلوقات میں تقسیم کی ہے اسی (رحمت) کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے جنگلی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں۔ اس نے ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھ چھوڑی ہیں۔ جن سے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب التوبۃ، رقم : ۲۷۵۲)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶)
’’میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے اور اس کے مستحق وہ لوگ ہیں جو تقویٰ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ہماری نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘