كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُقْرِئُ، نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، نا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ، كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَضَرَبَهَا ضَرْبًا شَدِيدًا - أَوْ قَالَ: ضَرْبًا - فَبَلَغَ مِنْهَا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، وَقَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا ثَابِتُ، خُذْ مِنْهَا)) ، فَقَالَتْ: عِنْدِي مَا أَعْطَانِي بِعَيْنِهِ، فَأَخَذَ مِنْهَا، وَاعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهَا
نكاح و طلاق کے احکام و مسائل
باب
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں ، پس انہوں نے ان کی خوب پٹائی کی، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، تو اس کا آپ سے ذکر کیا اور عرض کیا: میرا اور ثابت کا ایک ساتھ رہنا محال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ثابت! اس سے (حق مہر) لے لو۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: انہوں نے جو مجھے دیا تھا، وہ بالکل اسی طرح میرے پاس موجود ہے، پس وہ ان (حبیبہ رضی اللہ عنہا ) سے لے لیا گیا اور انہوں نے اپنے اہل کے ہاں عدت گزاری۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورت اگر شوہر کو کسی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور اس کے ساتھ نہ رہ سکتی ہو تو اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے اس سے خلع لے سکتی ہے، خلع کا جواز کتاب وسنت اور اجماع کے ساتھ ثابت ہے۔ (بدایة المجتهد: ۲؍۶۶۔ المغنی: ۷؍۵۱)
اہل علم نے خلع کی چند شرائط ذکر کی ہیں :
ناپسندیدگی کا اظہار عور ت کی طرف سے ہو مرد کی طرف سے نہ ہو، کیونکہ اگر مرد عورت کو ناپسند کرتا ہے تو اس عورت کو صبر سے کام لینا چاہیے، اگر نباہ انتہائی مشکل ہوجائے تو پھر وہ اسے طلاق دے کر علیحدہ ہوجائے۔ عورت اس وقت تک خلع کے مطالبے سے گریز کرے، جب تک اس کی ناپسندیدگی اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ حقوق زوجیت کی ادائیگی ہی مشکل ہوجائے۔ شوہر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس انتظار میں نہ رہے کہ وہ خود طلاق طلب کرے، تاکہ مہر کی رقم حاصل ہوجائے۔ ایسی صورت میں عورت سے مال وصول کرنا حرام ہے۔ عورت کو بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: ’’جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۹۴۷)
یہ بھی معلوم ہوتا ہے جب عورت خلع طلب کرے تو شوہر کو چاہیے اس کے مطالبے کو قبول کرے اور اپنا مہر وصول کرکے اسے علیحدہ کردے اور عورت کو دیے ہوئے مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی ثابت رضی اللہ عنہ کو) حکم دیا: ’’وہ اس سے اپنا باغ وصول کرلے اور زیادہ کچھ نہ لے۔ ‘‘ (صحیح ابن ماجة، رقم : ۱۶۷۳)
یہ بھی معلوم ہوا عورت عدت اپنے والدین کے گھر گزارے گی۔ اور یہ عدت ایک حیض ہے۔سنن ابی داود میں ہے سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی تھی۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۲۲۹) اس لیے کہ حیض حمل نہ ہونے کی علامت ہے، ورنہ وضع حمل تک عدت گزارے گی۔
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الطلاق، باب في الخلع، رقم: ۲۲۲۷۔ سنن نسائي، کتاب الطلاق، باب ماجاء في الخلع، رقم: ۳۴۶۲۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۶؍ ۴۳۳۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورت اگر شوہر کو کسی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور اس کے ساتھ نہ رہ سکتی ہو تو اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے اس سے خلع لے سکتی ہے، خلع کا جواز کتاب وسنت اور اجماع کے ساتھ ثابت ہے۔ (بدایة المجتهد: ۲؍۶۶۔ المغنی: ۷؍۵۱)
اہل علم نے خلع کی چند شرائط ذکر کی ہیں :
ناپسندیدگی کا اظہار عور ت کی طرف سے ہو مرد کی طرف سے نہ ہو، کیونکہ اگر مرد عورت کو ناپسند کرتا ہے تو اس عورت کو صبر سے کام لینا چاہیے، اگر نباہ انتہائی مشکل ہوجائے تو پھر وہ اسے طلاق دے کر علیحدہ ہوجائے۔ عورت اس وقت تک خلع کے مطالبے سے گریز کرے، جب تک اس کی ناپسندیدگی اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ حقوق زوجیت کی ادائیگی ہی مشکل ہوجائے۔ شوہر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس انتظار میں نہ رہے کہ وہ خود طلاق طلب کرے، تاکہ مہر کی رقم حاصل ہوجائے۔ ایسی صورت میں عورت سے مال وصول کرنا حرام ہے۔ عورت کو بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: ’’جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۹۴۷)
یہ بھی معلوم ہوتا ہے جب عورت خلع طلب کرے تو شوہر کو چاہیے اس کے مطالبے کو قبول کرے اور اپنا مہر وصول کرکے اسے علیحدہ کردے اور عورت کو دیے ہوئے مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی ثابت رضی اللہ عنہ کو) حکم دیا: ’’وہ اس سے اپنا باغ وصول کرلے اور زیادہ کچھ نہ لے۔ ‘‘ (صحیح ابن ماجة، رقم : ۱۶۷۳)
یہ بھی معلوم ہوا عورت عدت اپنے والدین کے گھر گزارے گی۔ اور یہ عدت ایک حیض ہے۔سنن ابی داود میں ہے سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی تھی۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۲۲۹) اس لیے کہ حیض حمل نہ ہونے کی علامت ہے، ورنہ وضع حمل تک عدت گزارے گی۔