مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 603

كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ أَخْبَرَنَا كُلْثُومٌ، نا عَطَاءٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ وَهُوَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ بِصَدَاقِ الْأُخْرَى يَقُولُ: أَنْكِحْنِي وَأُنْكِحُكَ بِغَيْرِ صَدَاقٍ فَذَاكَ الشَّغَارُ ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 603

نكاح و طلاق کے احکام و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام میں شغار (نکاح کی قسم) نہیں ۔‘‘ اور وہ یہ ہے کہ عورت سے دوسری عورت کے حق مہر کے عوض نکاح کرنا، وہ کہے: مجھے نکاح کر دو میں تمہیں نکاح کر دیتا ہوں اور حق مہر نہیں ہوگا، اسے شغار کہتے ہیں ۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بٹے سٹے کا نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اس کی شکل یہ بنتی ہے کہ ایک شخص اپنی بہن یا بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا ہے کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا ہے علیحدہ سے مہر ادا نہیں کیا جاتا۔ جمہور علماء امام مالک، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ اس نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: اگر مہر مثل ادا کیا جائے تو یہ نکاح درست ہے۔ ( فتح الباري: ۱۹۰؍ ۲۰۴۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۲۲۱) سنن ابی داود میں ہے، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج بیان کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور عبدالرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا اور دونوں نے اس نکاح کو حق مہر ٹھہرایا تھا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کو یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہ ان کے مابین تفریق کرا دے۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۸۲۶) اگرچہ مذکورہ بالا روایت میں یہ ہے کہ حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، موجودہ زمانہ میں اگرچہ حق مہر ادا تو کیا جاتا ہے، لیکن چونکہ یہ نکاح بھی خرابی کا باعث بنتا ہے کہ اگر ایک طرف سے طلاق ہوگی تو دوسری بے قصور کو بھی طلاق مل جاتی ہے۔ اور بھی بہت سارے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب النکاح، باب الشغار، رقم: ۵۱۱۲۔ مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم نکاح الشغار الخ، رقم : ۱۴۱۵۔ سنن ترمذي، رقم : ۱۱۲۴۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۱۸۸۳۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بٹے سٹے کا نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اس کی شکل یہ بنتی ہے کہ ایک شخص اپنی بہن یا بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا ہے کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا ہے علیحدہ سے مہر ادا نہیں کیا جاتا۔ جمہور علماء امام مالک، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ اس نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: اگر مہر مثل ادا کیا جائے تو یہ نکاح درست ہے۔ ( فتح الباري: ۱۹۰؍ ۲۰۴۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۲۲۱) سنن ابی داود میں ہے، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج بیان کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور عبدالرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کر دیا اور دونوں نے اس نکاح کو حق مہر ٹھہرایا تھا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کو یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہ ان کے مابین تفریق کرا دے۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۸۲۶) اگرچہ مذکورہ بالا روایت میں یہ ہے کہ حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، موجودہ زمانہ میں اگرچہ حق مہر ادا تو کیا جاتا ہے، لیکن چونکہ یہ نکاح بھی خرابی کا باعث بنتا ہے کہ اگر ایک طرف سے طلاق ہوگی تو دوسری بے قصور کو بھی طلاق مل جاتی ہے۔ اور بھی بہت سارے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔