مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 6

كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ضِرَارِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ((مَنْ أَفْتَى فُتْيَا يَعْمَى عَنْهَا، فَإِنَّمَا إِثْمُهَا عَلَيْهِ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 6

علم کی اہمیت و فضیلت کا بیان باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جس نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے اگر کسی سے مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بغیر علم کے غلط فتویٰ دے دے۔ انجان آدمی اس کے فتویٰ پر عمل کر لے تو اس غلط عمل کرنے والے کا گناہ فتویٰ دینے والے کو ہوگا۔ علماء ماہرین نے فرمایا ہے کہ ’’لَا اَدْرِیْ‘‘ (یعنی میں نہیں جانتا) یہ کہہ دینا بھی علم کی بات ہے یا نصف علم ہے، جبکہ آخرت کی مسئولیت بڑی سخت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فتویٰ دینا اقلیم علم کی حقیقی بادشاہت ہے اور علم کے بغیر فتویٰ دینا انتہائی قابل مذمت اور لائق نفرت ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۲۳۶) علامہ ابن خلدہ نے امام ربیع کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے ربیع! آپ لوگوں کو فتویٰ دیتے ہیں آپ کے پیش نظر سائل کو سہولت دینا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپ کو اپنی نجات کی فکر ہونی چاہیے۔ کہ میں اس مسئلہ کے بھنور سے کیسے خلاصی حاصل کروں۔ (الفقیه والمتفقة: ۲؍ ۳۵۷)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب العلم، باب التوقي فی الفتیا، رقم: ۳۶۵۷۔ قال الشیخ الالباني : حسن۔ سنن دارمي، رقم: ۱۵۹۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے اگر کسی سے مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بغیر علم کے غلط فتویٰ دے دے۔ انجان آدمی اس کے فتویٰ پر عمل کر لے تو اس غلط عمل کرنے والے کا گناہ فتویٰ دینے والے کو ہوگا۔ علماء ماہرین نے فرمایا ہے کہ ’’لَا اَدْرِیْ‘‘ (یعنی میں نہیں جانتا) یہ کہہ دینا بھی علم کی بات ہے یا نصف علم ہے، جبکہ آخرت کی مسئولیت بڑی سخت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فتویٰ دینا اقلیم علم کی حقیقی بادشاہت ہے اور علم کے بغیر فتویٰ دینا انتہائی قابل مذمت اور لائق نفرت ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۲۳۶) علامہ ابن خلدہ نے امام ربیع کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے ربیع! آپ لوگوں کو فتویٰ دیتے ہیں آپ کے پیش نظر سائل کو سہولت دینا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپ کو اپنی نجات کی فکر ہونی چاہیے۔ کہ میں اس مسئلہ کے بھنور سے کیسے خلاصی حاصل کروں۔ (الفقیه والمتفقة: ۲؍ ۳۵۷)