كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفًا الْأَعْرَابِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو الْهَجَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ وَلَمْ يَخْبُثِ الطَّعَامُ وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا)) .
نكاح و طلاق کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت سڑ ا کرتا (بدبودار ہوتا) نہ کھانا خراب ہوا کرتا، اور اگر حواء علیہ السلام نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے بے وفائی (دغا) نہ کرتی۔‘‘
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ (سلویٰ) گوشت جمع کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، اگر وہ یہ عادت نہ اپناتے، بلکہ بروقت کھا لیتے ذخیرہ نہ کرے تو گوشت سڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مذکورہ حدیث کا دوسرا حصہ ہے: اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے بے وفائی نہ کرتی۔
مطلب یہ کہ جب شیطان نے سیدہ حوا علیہا السلام کے سامنے ممنوعہ درخت کی فضیلت بیان کی تو سیدہ حوا علیہا السلام نے شیطان ملعون کی بات میں آکر اس کی بات کو مان لیا اور پھر سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی اس درخت کی خوبیاں بیان کیں تو وہ بھی مان گئے۔ اسی کو خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ ہماری کوئی اور بے وفائی یا دغا مراد نہیں ۔
تخریج :
بخاري، کتاب الانبیاء، باب سورة اعراف، رقم: ۳۳۹۹۔ مسلم، کتاب الرضاع، باب لولا حواء لم تخن الخ، رقم: ۱۴۷۰۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۰۴۔
مطلب یہ ہے کہ (سلویٰ) گوشت جمع کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، اگر وہ یہ عادت نہ اپناتے، بلکہ بروقت کھا لیتے ذخیرہ نہ کرے تو گوشت سڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مذکورہ حدیث کا دوسرا حصہ ہے: اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے بے وفائی نہ کرتی۔
مطلب یہ کہ جب شیطان نے سیدہ حوا علیہا السلام کے سامنے ممنوعہ درخت کی فضیلت بیان کی تو سیدہ حوا علیہا السلام نے شیطان ملعون کی بات میں آکر اس کی بات کو مان لیا اور پھر سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی اس درخت کی خوبیاں بیان کیں تو وہ بھی مان گئے۔ اسی کو خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ ہماری کوئی اور بے وفائی یا دغا مراد نہیں ۔