مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 595

كِتَابُ النِّكَاحِ وَ الطَّلاَقِ بَابٌ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 595

نكاح و طلاق کے احکام و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف میلان رکھے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط ہوگا۔‘‘
تشریح : شریعت نے ایک آدمی کو چار عورتیں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً﴾ (النسآء: ۳).... ’’جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے ہیں تو انصاف ضروری ہے، لیکن اگر دل کا میلان ایک کی طرف زیادہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی ازواج مطہرات کے مابین) ایام تقسیم کرتے اور عدل کرتے اور فرمایا کرتے ’’اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے اور اس بات میں مجھے ملامت نہ فرمانا جس کا تو مالک ہے اور میرا اس پر اختیار نہیں ۔‘‘ (سنن ابوداؤد، رقم : ۲۱۳۴) امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے مراد دل (کا میلان) ہے۔ معلوم ہوا کہ قلبی میلان کی کمی بیشی میں گرفت نہیں ہوگی۔ لیکن محبوب بیوی کی محبت کی وجہ سے دوسری بیوی کے حقوق میں کمی کوتاہی کرنا جرم ہے۔ اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے: ﴿فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا کَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (النسآء: ۱۲۹).... ’’ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو۔‘‘
تخریج : سنن ابي داود، کتاب النکاح، باب في القسم بین النساء، رقم: ۲۱۳۳۔ سنن نسائي، کتاب عشرة النساء، رقم: ۳۹۴۲۔، قال الشیخ الالباني : صحیح۔ سنن دارمي، رقم: ۲۲۰۶۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۹۵۔ شریعت نے ایک آدمی کو چار عورتیں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً﴾ (النسآء: ۳).... ’’جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے ہیں تو انصاف ضروری ہے، لیکن اگر دل کا میلان ایک کی طرف زیادہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی ازواج مطہرات کے مابین) ایام تقسیم کرتے اور عدل کرتے اور فرمایا کرتے ’’اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے اور اس بات میں مجھے ملامت نہ فرمانا جس کا تو مالک ہے اور میرا اس پر اختیار نہیں ۔‘‘ (سنن ابوداؤد، رقم : ۲۱۳۴) امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے مراد دل (کا میلان) ہے۔ معلوم ہوا کہ قلبی میلان کی کمی بیشی میں گرفت نہیں ہوگی۔ لیکن محبوب بیوی کی محبت کی وجہ سے دوسری بیوی کے حقوق میں کمی کوتاہی کرنا جرم ہے۔ اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے: ﴿فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا کَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (النسآء: ۱۲۹).... ’’ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو۔‘‘