مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 577

كِتَابُ التَّفْسِيرِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِی سُلَیْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ یَزِیدَ قَالَتْ: نَزَلَتْ سُورَةُ الْمَائِدَۃِ وَأَنَا آخُذُ بِزِمَامِ الْعَضْبَاء ِ، وَکَادَ أَنْ یَنْدَقَّ، عَضُدُهَا مِنْ ثِقَلِهَا

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 577

قرآن مجید کی تفسیر کابیان باب سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا: جب سورۂ المائدہ نازل ہوئی تو میں عضباء (اونٹنی) کی لگام تھامے ہوئے تھی، قریب تھا کہ اس کے بوجھ کی وجہ سے (میرا) بازو کٹ جاتا۔
تشریح : انبیاء علیہم السلام کی طرف چار طریقوں سے وحی آئی جبکہ قرآنِ مجید میں تین کا تذکرہ ہے: ﴿ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللّٰهُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِهِ مَا یَشَاءُ﴾ (الشوری:۵۱) ’’اور یہ کسی بشر کا مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر ہاں یا تو وحی سے یا کسی دوسرے کے پیچھے سے یا کسی (فرشتے) قاصد کو بھیج دے، سو وہ وحی پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔‘‘ بخاری ومسلم میں ہے، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس وحی گھنٹی کی آواز کی مانند آتی ہے اور وحی کی یہ قسم میرے لیے سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ جب وحی بند ہوتی ہے تو میں نے وحی کو یاد کرلیا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے انسان کی شکل میں آتا ہے، وہ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور وہ جو کہتا ہے، میں اسے یاد کرلیتا ہوں۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا سخت سردی کا دن ہوتا، آپ پر وحی اترتی تھی اور جب فرشتہ وحی پہنچا کر چلا جاتا تو آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گرتے۔ (بخاري، رقم : ۲) انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔
تخریج : مسند احمد: ۶؍ ۴۵۸۔ قال الاؤط: حسن لغیره و سنده حسن في الشواهد۔ انبیاء علیہم السلام کی طرف چار طریقوں سے وحی آئی جبکہ قرآنِ مجید میں تین کا تذکرہ ہے: ﴿ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللّٰهُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِهِ مَا یَشَاءُ﴾ (الشوری:۵۱) ’’اور یہ کسی بشر کا مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر ہاں یا تو وحی سے یا کسی دوسرے کے پیچھے سے یا کسی (فرشتے) قاصد کو بھیج دے، سو وہ وحی پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔‘‘ بخاری ومسلم میں ہے، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس وحی گھنٹی کی آواز کی مانند آتی ہے اور وحی کی یہ قسم میرے لیے سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ جب وحی بند ہوتی ہے تو میں نے وحی کو یاد کرلیا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے انسان کی شکل میں آتا ہے، وہ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور وہ جو کہتا ہے، میں اسے یاد کرلیتا ہوں۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا سخت سردی کا دن ہوتا، آپ پر وحی اترتی تھی اور جب فرشتہ وحی پہنچا کر چلا جاتا تو آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گرتے۔ (بخاري، رقم : ۲) انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔