مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 568

كِتَابُ الْفَضَائِلِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أنا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ إِسْحَاقُ: وَأَظُنُّنِي سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ، مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا: لَوَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي بَعْضَ أَصْحَابِي فَشَكَوْتُ إِلَيْهِ وَذَكَرْتُ لَهُ قَالَتْ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ: لَا. فَقُلْتُ: أَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ فَقَالَ: لَا. فَقُلْتُ: أَدْعُو لَكَ عَلِيًّا؟ فَقَالَ: لَا. فَقُلْتُ: أَدْعُو لَكَ عُثْمَانَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. قَالَتْ: فَدَعَوْتُ عُثْمَانَ فَجَاءَ فَلَمَّا كَانَ فِي الْبَيْتِ قَالَ لِي: تَنَحِّي، فَتَنَحَّيْتُ مِنْهُ، فَأَدْنَى عُثْمَانَ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى مَسَّتْ رُكْبَتُهُ رُكْبَتَهُ قَالَتْ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُ عُثْمَانَ وَيَحْمَرُّ وَجْهُهُ قَالَتْ: وَجَعَلَ يَقُولُ لَهُ وَيَحْمَرُّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: انْصَرِفْ، فَانْصَرَفَ. قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الدَّارِ، قَالُوا لِعُثْمَانَ: أَلَا تُقَاتِلُ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا سَأَصْبِرُ عَلَيْهِ. قَالَتْ: فَكُنَّا نَرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ فِيمَا يَكُونُ مِنْ أَمْرِهِ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 568

فضائل كا بيان باب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس میرا ایک صحابی ہو، میں اس سے شکایت کروں اور اس سے بات چیت کروں۔‘‘ انہوں نے کہا: میں نے گمان کیا کہ آپ ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) سے ملنا چاہتے ہوں گے، میں نے عرض کیا: میں آپ کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کو بلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ کے لیے علی رضی اللہ عنہ کو بلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ انہوں نے کہا: میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا، تو وہ تشریف لائے، پس جب وہ گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’الگ ہو جاؤ۔‘‘ میں الگ ہوگئی اور آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے قریب کر لیا، حتیٰ کہ آپ کا گُھٹنا ان کے گُھٹنے سے چھونے لگا، انہوں نے بیان کیا، پس آپ عثمان رضی اللہ عنہ سے بات چیت کرنے لگے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرمانے لگے، اور ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا، پھر آپ نے انہیں فرمایا: ’’چلے جاؤ۔‘‘ وہ چلے گئے، جب ان کے گھر کے محاصرے کا دن آیا تو انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: آپ لڑتے کیوں نہیں؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے میں اس پر قائم رہوں گا، انہوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا: ہم سمجھتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس واقعے کے متعلق عہد لیا تھا۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت رسول ثابت ہوتی ہے کہ اپنی جان دے دی لیکن باغیوں کے سامنے جھکے نہیں۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس فوج بھی موجود تھی لیکن اپنے آپ کو شہید کروا لیا۔ وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون ریزی نہ ہو اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا۔ معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی، وہ اسی طرح پوری ہوئی، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرگوشی کررہے تھے جبکہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ متغیر ہو رہا تھا، جب محاصرے کا دن ہوا تو ہم نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا ہم (ان سے) لڑائی نہ کریں؟ سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’نہ لڑو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا، میں خود کو اس کا پابند بنا رہا ہوں۔ ‘‘
تخریج : سنن ترمذي، ابواب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضي الله عنه، رقم: ۳۷۱۱۔ سنن ابن ماجة، باب فضل عثمان رضي الله عنه، رقم: ۱۱۳۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مذکورہ حدیث سے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت رسول ثابت ہوتی ہے کہ اپنی جان دے دی لیکن باغیوں کے سامنے جھکے نہیں۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس فوج بھی موجود تھی لیکن اپنے آپ کو شہید کروا لیا۔ وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون ریزی نہ ہو اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا۔ معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی، وہ اسی طرح پوری ہوئی، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرگوشی کررہے تھے جبکہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ متغیر ہو رہا تھا، جب محاصرے کا دن ہوا تو ہم نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا ہم (ان سے) لڑائی نہ کریں؟ سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’نہ لڑو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا، میں خود کو اس کا پابند بنا رہا ہوں۔ ‘‘