مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 560

كِتَابُ الْفَضَائِلِ بَابٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا عَلَى نَفْسِهِ أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 560

فضائل كا بيان باب اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے خود دین میں کوئی نیا کام جاری کیا یا کسی بدعتی (نیا کام جاری کرنے والے) کو پناہ دی تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کا کوئی نفل قبول ہوتا ہے نہ کوئی فرض۔‘‘
تشریح : بدعت کی تعریف: بدعت کا لغوی مطلب کوئی چیز ایجاد کرنا یا بنانا ہے۔ شرعی اصطلاح:.... ہر وہ کام جس کو دین میں حصول ثواب کے لیے کرنا جس کی صحت کی کوئی دلیل کتاب اللہ سنت رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے نہ ہو۔‘‘ لیکن آج کل کچھ کم عقل کہہ دیتے ہیں کہ اسپیکر، لائٹ، گاڑیوں وغیرہ کا استعمال بھی بدعت ہے، جو کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں تو اس کے متعلق مولانا احمد رضا خان صاحب کہتے ہیں: بدعت وضلالت وہی ہے جو بات دین میں نئی پیدا ہو اور دینوی رسوم وعادات پر حکم بدعت نہیں ہو سکتا مثلاً انگرکھا پہننا، پلاؤ کھانا یا دولہا کو جامہ پہنانا، دلہن کو پالکی میں بٹھانا، اسی طرح سہرا کہ اسے بھی کوئی دینی بات سمجھ کر نہیں کرتا، نہ بغرض ثواب کیا جاتا ہے، بلکہ سب ایک رسم ہی جان کر کرتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی جاہل اجہل ایسا ہو کہ اسے دینی بات جانے تو اس کی بیہودہ سمجھ پر اعتراض صحیح ہے۔ (فتاویٰ رضویة: ۲۳؍ ۳۲۰ جامعہ نظامیہ، لاہور) مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا بدعتی کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ سیدنافضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تم بدعتی کو آتے دیکھو تو (وہ راستہ چھوڑ کر) دوسرا راستہ اختیار کرو۔ بدعتی کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا، جس نے بدعتی کی مدد کی، اس نے گویا دین مٹانے میں مدد کی۔ (خصائص اہل السنہ :ص۲۲) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس شخص نے اسلام میں کوئی بدعت نکالی، اسے مستحسن جانا تو گویا اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت میں خیانت کا مرتکب قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ﴾ (المآئدۃ: ۳).... ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘ لہٰذا جو چیز اس دن (حجۃ الوداع کے دن) دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں۔ (کتاب الاعتصام: ص۶۴) بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهٗ فَهُوَ رَدٌّ۔)).... ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں نہیں ہے، وہ کام اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہے۔‘‘ اور بدعتی کی توبہ بھی اللہ ذوالجلال قبول نہیں کرتے، جب تک وہ بدعت کو چھوڑتا نہیں۔ (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۷) اور اسی طرح بدعتیوں کو حوض کوثر سے بھی محروم رکھا جائے گا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ۴۰۲)
تخریج : بخاري، کتاب فضائل المدینة، باب حرم المدینة، رقم: ۱۸۶۷۔ مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینة الخ، رقم: ۱۳۶۶۔ بدعت کی تعریف: بدعت کا لغوی مطلب کوئی چیز ایجاد کرنا یا بنانا ہے۔ شرعی اصطلاح:.... ہر وہ کام جس کو دین میں حصول ثواب کے لیے کرنا جس کی صحت کی کوئی دلیل کتاب اللہ سنت رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے نہ ہو۔‘‘ لیکن آج کل کچھ کم عقل کہہ دیتے ہیں کہ اسپیکر، لائٹ، گاڑیوں وغیرہ کا استعمال بھی بدعت ہے، جو کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں تو اس کے متعلق مولانا احمد رضا خان صاحب کہتے ہیں: بدعت وضلالت وہی ہے جو بات دین میں نئی پیدا ہو اور دینوی رسوم وعادات پر حکم بدعت نہیں ہو سکتا مثلاً انگرکھا پہننا، پلاؤ کھانا یا دولہا کو جامہ پہنانا، دلہن کو پالکی میں بٹھانا، اسی طرح سہرا کہ اسے بھی کوئی دینی بات سمجھ کر نہیں کرتا، نہ بغرض ثواب کیا جاتا ہے، بلکہ سب ایک رسم ہی جان کر کرتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی جاہل اجہل ایسا ہو کہ اسے دینی بات جانے تو اس کی بیہودہ سمجھ پر اعتراض صحیح ہے۔ (فتاویٰ رضویة: ۲۳؍ ۳۲۰ جامعہ نظامیہ، لاہور) مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا بدعتی کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ سیدنافضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تم بدعتی کو آتے دیکھو تو (وہ راستہ چھوڑ کر) دوسرا راستہ اختیار کرو۔ بدعتی کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا، جس نے بدعتی کی مدد کی، اس نے گویا دین مٹانے میں مدد کی۔ (خصائص اہل السنہ :ص۲۲) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس شخص نے اسلام میں کوئی بدعت نکالی، اسے مستحسن جانا تو گویا اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت میں خیانت کا مرتکب قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ﴾ (المآئدۃ: ۳).... ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘ لہٰذا جو چیز اس دن (حجۃ الوداع کے دن) دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں۔ (کتاب الاعتصام: ص۶۴) بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهٗ فَهُوَ رَدٌّ۔)).... ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں نہیں ہے، وہ کام اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہے۔‘‘ اور بدعتی کی توبہ بھی اللہ ذوالجلال قبول نہیں کرتے، جب تک وہ بدعت کو چھوڑتا نہیں۔ (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۷) اور اسی طرح بدعتیوں کو حوض کوثر سے بھی محروم رکھا جائے گا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ۴۰۲)