مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 54

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ وَيَكْرَهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ هَدَاهُ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يَغْرَقَ فِي النَّارِ ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 54

ايمان کابیان باب اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین چیزیں ہوں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس پا لیتا ہے: اللہ اور اس کا رسول اسے سب سے بڑھ کر محبوب ہوں، وہ کسی شخص سے صرف اللہ کی خاطر محبت کرتا ہو، اور وہ اس کے بعد کہ اللہ نے اس کی اسلام کی طرف راہنمائی کی ہو کفر کی طرف لوٹ جانا ایسے ہی ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں پھینکا جانا ناپسند کرتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت لذت ایمان کا باعث ہے۔ بشرطیکہ سب سے بڑھ کر ہو اس کی مزید وضاحت اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ (التوبۃ: ۲۴) ’’آپ کہہ دیجئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے اور قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔‘‘ معلوم ہوا جب مذکورہ بالاچیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا ٹکراؤ ہو تو اللہ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اولیت واہمیت دی جائے۔ (۲).... اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنا۔ (دیکھئے شرح حدیث نمبر ۲۵۲) (۳).... کفر سے کراہت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ذوالجلال کی نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور کافروں کے رسم ورواج سے نفرت کرنا اور مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے محبت اور ان کی مدد نہ کرنا۔
تخریج : بخاري، کتاب الایمان، باب حلاوة الایمان، رقم: ۱۶۔ مسلم، کتاب الایمان، باب بیان خصال من اتصف الخ، رقم: ۴۳۔ سنن ترمذي، رقم: ۲۶۲۴۔ سنن نسائي، رقم: ۴۹۸۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۴۰۳۳۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت لذت ایمان کا باعث ہے۔ بشرطیکہ سب سے بڑھ کر ہو اس کی مزید وضاحت اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ (التوبۃ: ۲۴) ’’آپ کہہ دیجئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے اور قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔‘‘ معلوم ہوا جب مذکورہ بالاچیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا ٹکراؤ ہو تو اللہ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اولیت واہمیت دی جائے۔ (۲).... اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنا۔ (دیکھئے شرح حدیث نمبر ۲۵۲) (۳).... کفر سے کراہت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ذوالجلال کی نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور کافروں کے رسم ورواج سے نفرت کرنا اور مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے محبت اور ان کی مدد نہ کرنا۔