كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ اَخْبَرَنَا اَبُوْ مُعَاوِیَةَ، نَا الْحَجَّاجُ،عَنْ عَطَاءٍ، اَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُوْرِیَّ کَتَبَ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْاَلُهٗ عَنْ قَتْلِ الصِّبْیَانِ، وَعَنِ الصَّبِّی مَتٰی یَنْقَطِعُ عَنْهُ الْیَتِیْمِ، وَعَنِ النِّسَاءِ وَهَلْ یَشْهَدْنَ الْقِتَالَ، وَعَنِ الْخُمُسِ، وَعَنِ الْعَبْدِ هَلْ لَهٗ فِی الْمَغْنَمِ نَصِیْبٌ؟ فَکَتَبَ اِلَیَّ: اَمَّا الصِّبْیَانُ، فَاِنْ کُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْمُؤْمِنَ مِنَ الْکَافِرِ فَاقْتُلُهٗ، وَاَمَّا الصَّبِیُّ، فَاِنَّهٗ یَنْقَطِعُ عَنْهُ الْیُتْمَ اِذَا احْتَلَمَ، وَاَمَّا النِّسَاءُ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یُخْرِجُهُنَّ مَعَهٗ، فَیُدَاوِیْنَ الْمَرْضٰی، وَیَقُمْنَ عَلَی الْجَرْحٰی، وَیَشْهَدْنَ الْقِتَالَ، وَاَمَّا الْخُمُسُ، فَاِنَّا قُلْنَا: هُوَ لَنَا، فَاَبٰی ذٰلِكَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا، وَاَمَّا الْعَبْدُ فَقَدْ کَانَ یُحْذَا مِنَ الْغَنِیْمَةِ
جہاد کے فضائل و مسائل
باب
عطاء رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ نجدہ حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نام خط لکھا جس میں انہوں نے بچوں کے قتل کرنے، بچے سے کس عمر میں یتیمی کے احکام ختم ہوتے ہیں؟ عورتوں کے بارے میں کہ کیا وہ قتال و جہاد میں شریک ہوں گی؟ خمس کے بارے میں اور غلام کے بارے میں کہ کیا اس کے لیے مال غنیمت میں کوئی حصہ ہے؟ (ان امور) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے میرے نام خط لکھا: رہے بچے، اگر تم خضر( علیہ السلام ) ہو تو تم مومن کی کافر سے تمیز کر لو گے لہٰذا اسے قتل کر دو، رہا بچہ، پس جب وہ بالغ ہو جائے گا تو اس سے یتیمی والے احکام ختم ہو جائیں گے، جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کے لیے جایا کرتی تھیں، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتیں، زخمیوں کی دیکھ بھال کرتیں اور قتال میں شریک ہوتیں، رہا خمس، تو ہم نے کہا کہ وہ ہمارا حق ہے تو ہماری قوم نے ہماری یہ بات نہ مانی، رہا غلام تو اسے مال غنیمت میں سے حصہ دیا جاتا تھا۔
تشریح :
مذکورہ حدیث کئی ایک فوائد پر مشتمل ہے۔
(۱).... میدانِ جنگ میں بچوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو مقتول پایا تو عورتوں اور بچوں کے قتل سے روک دیا۔ (بخاري، رقم : ۲۰۱۴۔ مسلم: ۱۷۴۴)
ہاں اگر کوئی سیّدنا خضر علیہ السلام کی طرح تمیز کرسکے کہ بچہ بڑا ہو کر مسلمان ہوگا یا کافر، جبکہ یہ مشکل ہے۔ کیونکہ سیّدنا خضر علیہ السلام نے بچے کو قتل کیا تو وہ اللہ ذوالجلال کے حکم سے تھا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ﴾ (الکہف:۸۲) ’’میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘
(۲).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جب آدمی بالغ ہو جائے تو یتیمی والے احکام ختم ہوجاتے ہیں اور بلوغت کی علامات میں سے ازروئے حدیث احتلام آنا،داڑھی یا زیر ناف بال اگنا یا پندرہ سال کا ہو جانا ہیں۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں چودہ سال کا تھا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے قبول نہ کیا، جب پندرہ سال کا ہوا تو قبول کرلیا۔ (مسلم، کتاب الامارة، باب بیان سن البلوغ)
(۳).... عورتیں جہاد میں مجاہدین کی خدمت کرنے کے لیے زخمیوں کی دیکھ بھال اور بوقت ضرورت قتال کے لیے بھی شریک ہوسکتی ہیں۔
(۴).... غلام کو مالِ غنیمت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں۔ تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عورت اور غلام کے متعلق : ((اِنَّهٗ لَیْسَ لهَمُاَ شَیْئٌ اِلَّا اَنْ یَحْذِیَا۔)) (مسلم، کتاب الجہاد، رقم : ۱۸۱۲) .... ’’ان دونوں کو حصہ نہیں ملے گا البتہ انعام مل سکتا ہے۔‘‘ جمہور علماء کا موقف ہے کہ جتنا امام مناسب جانے اتنا حصہ ان دونوں کو دیا جائے گا۔
(۵).... خمس: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَہه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی﴾ (الانفال:۴۱).... ’’جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا اور قرابت داروں کا ہے۔‘‘
ذوالقربی سے مراد بنی ہاشم اور بنی مطلب ہیں۔ اور ’’قوم‘‘ سے مراد امرائے بنو أمیہ ہیں۔ جنہوں نے یہ خمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کو نہ دیا۔
تخریج :
مسلم، کتاب الجهاد والسیر، باب النساء الغازیات الخ، رقم: ۱۸۱۲۔ مسند احمد: ۱؍ ۲۲۴۔
مذکورہ حدیث کئی ایک فوائد پر مشتمل ہے۔
(۱).... میدانِ جنگ میں بچوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو مقتول پایا تو عورتوں اور بچوں کے قتل سے روک دیا۔ (بخاري، رقم : ۲۰۱۴۔ مسلم: ۱۷۴۴)
ہاں اگر کوئی سیّدنا خضر علیہ السلام کی طرح تمیز کرسکے کہ بچہ بڑا ہو کر مسلمان ہوگا یا کافر، جبکہ یہ مشکل ہے۔ کیونکہ سیّدنا خضر علیہ السلام نے بچے کو قتل کیا تو وہ اللہ ذوالجلال کے حکم سے تھا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ﴾ (الکہف:۸۲) ’’میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘
(۲).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جب آدمی بالغ ہو جائے تو یتیمی والے احکام ختم ہوجاتے ہیں اور بلوغت کی علامات میں سے ازروئے حدیث احتلام آنا،داڑھی یا زیر ناف بال اگنا یا پندرہ سال کا ہو جانا ہیں۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں چودہ سال کا تھا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے قبول نہ کیا، جب پندرہ سال کا ہوا تو قبول کرلیا۔ (مسلم، کتاب الامارة، باب بیان سن البلوغ)
(۳).... عورتیں جہاد میں مجاہدین کی خدمت کرنے کے لیے زخمیوں کی دیکھ بھال اور بوقت ضرورت قتال کے لیے بھی شریک ہوسکتی ہیں۔
(۴).... غلام کو مالِ غنیمت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں۔ تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عورت اور غلام کے متعلق : ((اِنَّهٗ لَیْسَ لهَمُاَ شَیْئٌ اِلَّا اَنْ یَحْذِیَا۔)) (مسلم، کتاب الجہاد، رقم : ۱۸۱۲) .... ’’ان دونوں کو حصہ نہیں ملے گا البتہ انعام مل سکتا ہے۔‘‘ جمہور علماء کا موقف ہے کہ جتنا امام مناسب جانے اتنا حصہ ان دونوں کو دیا جائے گا۔
(۵).... خمس: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَہه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی﴾ (الانفال:۴۱).... ’’جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا اور قرابت داروں کا ہے۔‘‘
ذوالقربی سے مراد بنی ہاشم اور بنی مطلب ہیں۔ اور ’’قوم‘‘ سے مراد امرائے بنو أمیہ ہیں۔ جنہوں نے یہ خمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کو نہ دیا۔