كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ، نا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي ، عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ، وَكَانَتْ قَدْ جَمَعَتِ الْقُرْآنَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ غَزَا بَدْرًا قَالَتْ لَهُ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَكَ أُدَاوِي جَرْحَاكُمْ وَأُمَرِّضَ مَرْضَاكُمْ، لَعَلَّ أَنْ تُهْدَى لِي شَهَادَةٌ، قَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ مَهَّدَ لَكِ شَهَادَةً)) ، فَكَانَ يُسَمِّيهَا الشَّهِيدَةَ، وَكَانَ أَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا، فَكَانَ لَهَا مُؤَذِّنٌ، فَكَانَتْ تَؤُمُّ أَهْلَ دَارِهَا حَتَّى غَمَّتْهَا جَارِيَةٌ لَهَا وَغُلَامٌ لَهَا، كَانَتْ قَدْ دَبَرَتْهُمَا فَقَتَلَاهَا فِي إِمَارَةِ عُمَرَ، فَقِيلَ إِنَّ أُمَّ وَرَقَةَ قُتِلَتْ قَتَلَهَا غُلَامُهَا وَجَارِيَتُهَا، فَقَامَ عُمَرُ فِي النَّاسِ فَقَالَ: إِنَّ أُمَّ وَرَقَةَ غَمَّتْهَا جَارِيَتُهَا وَغُلَامُهَا حَتَّى قَتْلَاهَا، وَإِنَّهُمَا هَرَبَا، فَأَتَى بِهِمَا، فَصَلَبَهُمَا، فَكَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: ((انْطَلِقُوا بِنَا نَزُورُ الشَّهِيدَةَ))
جہاد کے فضائل و مسائل
باب
سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: انہیں قرآن یاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوۂ بدر کے لیے جانے لگے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں؟ میں تمہارے زخمیوں اور مریضوں کا علاج معالجہ اور تیمارداری کروں گی، ہو سکتا ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارے لیے شہادت لکھ دی ہے، پس آپ انہیں شہیدہ کہا کرتے تھے اور آپ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں، ان کا ایک مؤذن تھا، وہ اپنے گھر والوں کی امامت کراتی رہیں حتیٰ کہ ان کی لونڈی اور ان کے غلام نے ان کا گلا گھونٹ دیا، انہوں نے ان دونوں سے کہہ رکھا تھا کہ میری وفات کے بعد وہ آزاد ہوں گے، ان دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں انہیں قتل کیا تھا، مشہور ہوگیا کہ ام ورقہ کو قتل کر دیا گیا ہے، ان کے غلام اور ان کی لونڈی نے انھیں قتل کیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا: ام ورقہ کی لونڈی اور ان کے غلام نے ان کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا ہے اور وہ دونوں بھاگ گئے ہیں، پس انہیں لایا گیا اور انہیں سولی چڑھایا گیا، اور وہ دونوں پہلے ہیں جنہیں مدینہ منورہ میں پھانسی دی گئی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ہمارے ساتھ چلو، ہم شہیدہ سے ملیں گے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی وہ سچ ثابت ہوئی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا عورتیں عورتوں کی امامت کروا سکتی ہیں، لیکن عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں عورت کو مردوں کی امام بنانے کا کہیں ثبوت نہیں اور اللہ ذوالجلال نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے اور عورتیں دین وعقل کے لحاظ سے بھی ناقص ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عورت کا مردوں کی امامت کرانا جائز نہیں۔ (المحلی بالاثار: ۳؍ ۱۳۵) معلوم ہوا عورت اذان نہیں دے سکتی اس لیے تو انھوں نے ایک مؤذن مرد مقرر کیا تھا نہ کہ خود اذان دیا کرتی تھیں۔
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الصلاة، باب امامة النساء، رقم: ۵۹۱۔ قال الشیخ الالباني : حسن۔ مسند احمد: ۶؍ ۴۰۵۔ معجم طبراني کبیر: ۲۵؍ ۲۴؍ ۳۲۶۔ سنن کبری بیهقي: ۳؍ ۱۳۰۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی وہ سچ ثابت ہوئی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا عورتیں عورتوں کی امامت کروا سکتی ہیں، لیکن عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں عورت کو مردوں کی امام بنانے کا کہیں ثبوت نہیں اور اللہ ذوالجلال نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے اور عورتیں دین وعقل کے لحاظ سے بھی ناقص ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عورت کا مردوں کی امامت کرانا جائز نہیں۔ (المحلی بالاثار: ۳؍ ۱۳۵) معلوم ہوا عورت اذان نہیں دے سکتی اس لیے تو انھوں نے ایک مؤذن مرد مقرر کیا تھا نہ کہ خود اذان دیا کرتی تھیں۔