مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 523

كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمٍ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَهْدَى رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ الْجُزَامِيُّ غُلَامًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ مَعَهُ إِلَى خَيْبَرَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ نَزَلَ نَاحِيَةَ الْوَادِي عَشِيَّةً مِنَ الْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ فَقَامَ الْعَبْدُ يَصْنَعُ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ فَقُلْنَا: هَنَا لَكَ الْجَنَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ شَمْلَتَهُ لَتُجْرَفُ عَلَيْهِ فِي النَّارِ)) ، وَكَانَ غَلَّهَا مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَزِعًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ شِرَاكَتَيْ نَعْلَيْنِ لِي فَقَالَ: ((يُعَدُّ لَكَ مِثْلُهَا فِي النَّارِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 523

جہاد کے فضائل و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رفاعہ بن زید الجذامی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک غلام بھیجا، آپ اس کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو آپ نے عصر ومغرب کے درمیان وادی عشیہ میں قیام فرمایا، تو وہ غلام کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے پالان؍ کجاوہ اتارنے لگا، تو کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر اسے آکر لگا اور وہ مارا گیا، ہم نے کہا: تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ چادر جو اس نے غزوۂ خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے چوری کر لی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔‘‘ راوی نے بیان کیا: آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص گھبرائے ہوئے آئے تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جوتوں کے دو تسمے اٹھا لیے تھے، تو آپ نے فرمایا: ’’ان دونوں کے مثل تمہارے لیے جہنم میں تیار کیے جائیں گے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کسی شخص کے بارے میں قطعی جنتی کا حکم لگانا جائز نہیں۔ سوائے ان کے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔ اس کے علاوہ کسی کے متعلق حسن ظن کرنا تو درست ہے لیکن قطعی جنتی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کرپشن کبیرہ گناہ ہے ایسا گناہ جو جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے خیبر کے روز اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک شخص وفات پا گیا، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو‘‘، اس سے لوگوں کے چہرے فق ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے اس ساتھی نے اللہ کی راہ میں سوتے ہوئے خیانت (یا چوری) کی ہے‘‘۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں ایسے مونگے ملے جو یہودی لوگ استعمال کرتے تھے۔ ان کی قیمت دو درہم بھی نہ تھی۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۷۱۰) معلوم ہوا سرکاری خزانے کی قلیل چوری بھی عام کثیر چوری سے زیادہ سنگین ہے، لہٰذا آج سرکاری مال کو مالِ مفت سمجھ کر کرپشن کرنے والوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
تخریج : بخاري، کتاب الایمان والنذور، باب هل یدخل فی الایمان والنذور الخ، رقم: ۶۷۰۷۔ مسلم، کتاب الایمان، باب غلظ تحریم الغلول الخ، رقم: ۱۱۵۔ سنن ابي داود، رقم: ۲۷۱۱۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۴۸۵۱۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کسی شخص کے بارے میں قطعی جنتی کا حکم لگانا جائز نہیں۔ سوائے ان کے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔ اس کے علاوہ کسی کے متعلق حسن ظن کرنا تو درست ہے لیکن قطعی جنتی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کرپشن کبیرہ گناہ ہے ایسا گناہ جو جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے خیبر کے روز اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک شخص وفات پا گیا، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو‘‘، اس سے لوگوں کے چہرے فق ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے اس ساتھی نے اللہ کی راہ میں سوتے ہوئے خیانت (یا چوری) کی ہے‘‘۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں ایسے مونگے ملے جو یہودی لوگ استعمال کرتے تھے۔ ان کی قیمت دو درہم بھی نہ تھی۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۷۱۰) معلوم ہوا سرکاری خزانے کی قلیل چوری بھی عام کثیر چوری سے زیادہ سنگین ہے، لہٰذا آج سرکاری مال کو مالِ مفت سمجھ کر کرپشن کرنے والوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔