كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا عَوْفٌ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ قَتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ، لَا مَلِكَ إِلَّا اللَّهُ))
جہاد کے فضائل و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر سخت ناراض ہوتا ہے جسے اللہ کے رسول نے قتل کیا ہو، اور اللہ اس شخص پر بھی سخت ناراض ہوتا ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) کا نام رکھتا ہے، اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔‘‘
تشریح :
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہان والوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۰۷)
لوگوں نے آپ کو اذیتیں پہنچائیں لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو معاف کیا۔ اور اپنی امت کے لوگوں کے لیے دعائیں مانگیں۔ لوگوں نے آپ کو طائف کی بستی میں پتھر مارے تو آپ نے ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کی اور اسی طرح غزوۂ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو دعاء کی:
((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)) (مسلم: ۴۶۴۶) ’’اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما، یقینا انہیں علم نہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا بات غزوۂ احد کے بعد بیان کی، جب ابی بن خلف کو قتل کیا۔ ابی بن خلف کہنے لگا: میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (استغفر اللہ) قتل کروں گا۔ غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نیزہ مارا، معمولی سی خراش اس کو آئی اور قریش مکہ سے کہنے لگا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کر دیا، لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے دل چھوڑ دیا ہے، ورنہ تمہیں کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔ کہنے لگا: مجھے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا، اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک دیتا، تو میری جان چلی جاتی۔ بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس آتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔ ( سیرة ابن هشام: ۲؍ ۸۴)
(۲).... معلوم ہوا مخلوق کے لیے شہنشاہ سخت ناپسندیدہ نام ہے، کیونکہ یہ لقب اللہ ذوالجلال کی ذات کے لائق ہے اس کا معنی ہے کہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ، اور ایسا نام رکھنے سے اللہ ذوالجلال کے نام کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے، جو نص قرآنی ﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْئٌ﴾ کے سراسر مخالف ہے۔ لہٰذا یہ نام صرف اللہ عزوجل کو ہی زیب دیتا ہے اور اسی کے لیے ہونا چاہیے۔ ( بهجة النفوس: ۴؍ ۱۸۵)
’’فتح الباری‘‘ میں ہے کہ شہنشاہ کی طرح دوسرے بعض اسماء بھی جو ذات حق جل جلالہ کے لیے مختص ہیں، کسی اور کو ان اسماء سے موسوم کرنا حرام ہے اور وہ یہ ہیں: (۱) خالق الخلق (۲)احکم الحاکمین (۳)سلطان السلاطین اور امیر الامراء۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول رحمن، قدوس اور جبار وغیرہ بھی اسی میں شامل ہیں۔
علامہ عینی، ابو محمد بن ابی جمرہ اور علامہ زمخشریs کا کہنا ہے: قاضی القضاہ، کبیر القضاء، اور اقضی الاقضاء جیسے نام بھی نہیں رکھنے چاہئیں، لیکن اقضی اور قاضی القضاۃ جیسے نام رکھنے کی صراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ملتی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے متعلق فرمایا: ’’اَقْضَاکُمُ عَلِیٌّ‘‘، البتہ یہ بات واضح رہے کہ جس صاحب کو قاضی القضاة یا اقضی القضاة جیسے لقب سے ملقب کیا جا رہا ہو تو اس سے مقصود یہ ہو کہ وہ صاحب اپنے زمانے یا ملک یا شہر کے لوگوں میں سب سے زیادہ عادل اور علم والا یا زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (فتح الباری:۱۰؍ ۵۹۰)
تخریج :
بخاري، کتاب المغازی، باب ما اصاب النبي صلی الله علیه وسلم من الجراح یوم احد، رقم: ۴۰۷۳۔ مسلم، کتاب الجهاد والسیر، باب اشتداد غضب الله علی من قتله رسول الله صلی الله علیه وسلم، رقم: ۱۷۹۳،۲۱۴۳۔مسند احمد: ۲؍ ۴۹۲۔
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہان والوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۰۷)
لوگوں نے آپ کو اذیتیں پہنچائیں لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو معاف کیا۔ اور اپنی امت کے لوگوں کے لیے دعائیں مانگیں۔ لوگوں نے آپ کو طائف کی بستی میں پتھر مارے تو آپ نے ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کی اور اسی طرح غزوۂ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو دعاء کی:
((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)) (مسلم: ۴۶۴۶) ’’اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما، یقینا انہیں علم نہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا بات غزوۂ احد کے بعد بیان کی، جب ابی بن خلف کو قتل کیا۔ ابی بن خلف کہنے لگا: میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (استغفر اللہ) قتل کروں گا۔ غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نیزہ مارا، معمولی سی خراش اس کو آئی اور قریش مکہ سے کہنے لگا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کر دیا، لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے دل چھوڑ دیا ہے، ورنہ تمہیں کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔ کہنے لگا: مجھے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا، اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک دیتا، تو میری جان چلی جاتی۔ بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس آتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔ ( سیرة ابن هشام: ۲؍ ۸۴)
(۲).... معلوم ہوا مخلوق کے لیے شہنشاہ سخت ناپسندیدہ نام ہے، کیونکہ یہ لقب اللہ ذوالجلال کی ذات کے لائق ہے اس کا معنی ہے کہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ، اور ایسا نام رکھنے سے اللہ ذوالجلال کے نام کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے، جو نص قرآنی ﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْئٌ﴾ کے سراسر مخالف ہے۔ لہٰذا یہ نام صرف اللہ عزوجل کو ہی زیب دیتا ہے اور اسی کے لیے ہونا چاہیے۔ ( بهجة النفوس: ۴؍ ۱۸۵)
’’فتح الباری‘‘ میں ہے کہ شہنشاہ کی طرح دوسرے بعض اسماء بھی جو ذات حق جل جلالہ کے لیے مختص ہیں، کسی اور کو ان اسماء سے موسوم کرنا حرام ہے اور وہ یہ ہیں: (۱) خالق الخلق (۲)احکم الحاکمین (۳)سلطان السلاطین اور امیر الامراء۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول رحمن، قدوس اور جبار وغیرہ بھی اسی میں شامل ہیں۔
علامہ عینی، ابو محمد بن ابی جمرہ اور علامہ زمخشریs کا کہنا ہے: قاضی القضاہ، کبیر القضاء، اور اقضی الاقضاء جیسے نام بھی نہیں رکھنے چاہئیں، لیکن اقضی اور قاضی القضاۃ جیسے نام رکھنے کی صراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ملتی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے متعلق فرمایا: ’’اَقْضَاکُمُ عَلِیٌّ‘‘، البتہ یہ بات واضح رہے کہ جس صاحب کو قاضی القضاة یا اقضی القضاة جیسے لقب سے ملقب کیا جا رہا ہو تو اس سے مقصود یہ ہو کہ وہ صاحب اپنے زمانے یا ملک یا شہر کے لوگوں میں سب سے زیادہ عادل اور علم والا یا زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (فتح الباری:۱۰؍ ۵۹۰)