مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 5

كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُقْرِئُ، نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنِ اسْتَشَارَهُ أَخُوهُ الْمُسْلِمُ فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ رُشْدٍ فَقَدْ خَانَهُ، وَمَنْ أَفْتَى فُتْيَا بِغَيْرِ تَثَبُّتٍ فَإِنَّ إِثْمَهَا عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 5

علم کی اہمیت و فضیلت کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میرے حوالے سے ایسی بات کی جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے، جس سے اس کا مسلمان بھائی مشورہ طلب کرے اور وہ اسے صحیح مشورہ نہ دے تو اس نے اس سے خیانت کی اور جس نے بلا تحقیق کوئی فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے۔‘‘
تشریح : (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے شرح حدیث : ۲۶۳) (۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مشورہ ایک امانت ہے جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو امانتداری کے ساتھ مشورہ دینا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالہیثم سے فرمایا: ’’ تمہارے پاس کوئی خادم ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ہمارے پاس کوئی قیدی آجائیں تو ہمارے پاس آجانا‘‘ (اس کے بعد) نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے۔ ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دونوں میں سے چن لو‘‘ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے لیے چن دیجئے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شبہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانتدار ہوتا ہے۔ اس (غلام) کو لے لو، میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۶۴۱۔ ادب المفرد، رقم : ۲۵۶) معلوم ہوا جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو صحیح مشورہ دینا چاہیے اور ایسا مشورہ دینا چاہیے جو اس کی دنیا وآخرت کے لیے بہتر ہو۔ نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے مشاورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’آپ ان سے معاملات میں مشورہ کیا کریں۔‘‘ اور صحابہ کرامy کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ﴾ (الشوریٰ: ۳۸) ’’ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔ ‘‘
تخریج : ادب المفرد للبخاري، رقم: ۲۵۹۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۲۱۔ (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے شرح حدیث : ۲۶۳) (۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مشورہ ایک امانت ہے جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو امانتداری کے ساتھ مشورہ دینا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالہیثم سے فرمایا: ’’ تمہارے پاس کوئی خادم ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ہمارے پاس کوئی قیدی آجائیں تو ہمارے پاس آجانا‘‘ (اس کے بعد) نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے۔ ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دونوں میں سے چن لو‘‘ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے لیے چن دیجئے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شبہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانتدار ہوتا ہے۔ اس (غلام) کو لے لو، میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۶۴۱۔ ادب المفرد، رقم : ۲۵۶) معلوم ہوا جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو صحیح مشورہ دینا چاہیے اور ایسا مشورہ دینا چاہیے جو اس کی دنیا وآخرت کے لیے بہتر ہو۔ نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے مشاورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’آپ ان سے معاملات میں مشورہ کیا کریں۔‘‘ اور صحابہ کرامy کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ﴾ (الشوریٰ: ۳۸) ’’ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔ ‘‘