كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْعُمْرَى جَائِزَةٌ
ہبہ اور اس کی فضیلت کابیان
باب
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمریٰ جائز ہے۔‘‘
تشریح :
عمریٰ: عمر سے ماخوذ ہے یعنی وہ چیز جو زندگی بھر کے لیے دی جائے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جاہلیت میں ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو گھر دیتا تو کہتا: میں نے اسے یہ گھر عمر اور زندگی کی مدت تک مباح قرار دیا ہے، پھر کہا جاتا تھا کہ یہ فلاں کے لیے عمریٰ ہے۔ (المنجد: ص۵۸۲۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۷۴)
اہل علم نے عمریٰ کی تین صورتیں بیان کی ہیں: ایک یہ کہ مطلق طور پر عمر بھر کے لیے ہبہ کر دینا۔ دوسری یہ کہ جس کو چیز ہبہ کی جا رہی ہے۔ اس کو زندگی کی شرط پر دینا، تیسری یہ کہ یوں کہنا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تمہارے بعد تمہارے ورثا کے لیے ہے۔ تیسری صورت جمہور کا موقف ہے۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۲۸۲) اور مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہ موقف ثابت ہے اور لفظ جائزہ کے معنی ماضیہ ومستمرۃ ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد موہوب لہ کی اولاد اس کی وارث ہوگی۔ خواہ اولاد کا ذکر نہ بھی کرے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ جمہور کا موقف دلائل سے راجح معلوم ہوتا ہے۔
تخریج :
تقدم تخریجه : ۱۰۶۔
عمریٰ: عمر سے ماخوذ ہے یعنی وہ چیز جو زندگی بھر کے لیے دی جائے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جاہلیت میں ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو گھر دیتا تو کہتا: میں نے اسے یہ گھر عمر اور زندگی کی مدت تک مباح قرار دیا ہے، پھر کہا جاتا تھا کہ یہ فلاں کے لیے عمریٰ ہے۔ (المنجد: ص۵۸۲۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۷۴)
اہل علم نے عمریٰ کی تین صورتیں بیان کی ہیں: ایک یہ کہ مطلق طور پر عمر بھر کے لیے ہبہ کر دینا۔ دوسری یہ کہ جس کو چیز ہبہ کی جا رہی ہے۔ اس کو زندگی کی شرط پر دینا، تیسری یہ کہ یوں کہنا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تمہارے بعد تمہارے ورثا کے لیے ہے۔ تیسری صورت جمہور کا موقف ہے۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۲۸۲) اور مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہ موقف ثابت ہے اور لفظ جائزہ کے معنی ماضیہ ومستمرۃ ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد موہوب لہ کی اولاد اس کی وارث ہوگی۔ خواہ اولاد کا ذکر نہ بھی کرے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ جمہور کا موقف دلائل سے راجح معلوم ہوتا ہے۔