كِتَابُ الْعِتْقِ وَ الْمَكَاتِبِ بَابٌ اَخْبَرَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، نَا اَبُوْبَکْرِ السَّبَرِیُّ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ عَبْدِاللّٰهِ عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِاُمِّ اِبْرَاهِیْمَ حِیْنَ وَلَدَتْ: اَعْتِقَهَا وَلَدُهَا
غلاموں کی آزازی اور مکاتبت کا بیان
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے لخت جگر) ابراہیم( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ (ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا )کے لیے فرمایا جس وقت کہ انہوں نے انہیں جنم دیا تھا: ’’اس کے بیٹے نے اسے آزادی دلا دی۔‘‘
تشریح :
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم اپنی لونڈیوں اور امہات اولاد کو بیچ دیا کرتے تھے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح ابی داؤد، رقم : ۳۳۴۵۔ سنن ابن ماجة، ابواب العتق، رقم : ۲۵۱۷)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اگرچہ سنداً صحیح ہے، لیکن اسے اس لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا، کیونکہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس عمل کا علم تھا۔ (المحلی بالاثار: ۸؍۲۱۴)
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے امّ ولد لونڈیوں کی بیع سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ لونڈی نہ تو ہبہ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی میراث میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ جب تک مالک چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جب فوت ہوجائے تو وہ لونڈی آزاد ہے۔ (سنن کبریٰ بیهقی: ۱۰؍ ۳۴۲۔ سنن دارقطنی: ۴؍ ۱۳۴)
جمہور کا موقف ہے کہ امّ ولد (وہ لونڈی جس سے مالک کی اولاد ہو جائے) کی بیع جائز نہیں۔ (نیل الاوطار: ۴؍ ۱۶۹)
اس سلسلہ میں راجح بات یہی ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ لیکن دلیل سے پتہ چلتا ہے کہ امّ ولد کی بیع حرام نہیں ہے۔ لیکن کراہت ضرور موجود ہے۔
تخریج :
سنن ابن ماجة، کتاب العتق، باب امهات الاولاد، رقم: ۲۵۱۶۔ قال الشیخ الالباني ضعیف۔ مستدرك حاکم: ۲؍ ۲۳۔
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم اپنی لونڈیوں اور امہات اولاد کو بیچ دیا کرتے تھے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح ابی داؤد، رقم : ۳۳۴۵۔ سنن ابن ماجة، ابواب العتق، رقم : ۲۵۱۷)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اگرچہ سنداً صحیح ہے، لیکن اسے اس لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا، کیونکہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس عمل کا علم تھا۔ (المحلی بالاثار: ۸؍۲۱۴)
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے امّ ولد لونڈیوں کی بیع سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ لونڈی نہ تو ہبہ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی میراث میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ جب تک مالک چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جب فوت ہوجائے تو وہ لونڈی آزاد ہے۔ (سنن کبریٰ بیهقی: ۱۰؍ ۳۴۲۔ سنن دارقطنی: ۴؍ ۱۳۴)
جمہور کا موقف ہے کہ امّ ولد (وہ لونڈی جس سے مالک کی اولاد ہو جائے) کی بیع جائز نہیں۔ (نیل الاوطار: ۴؍ ۱۶۹)
اس سلسلہ میں راجح بات یہی ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ لیکن دلیل سے پتہ چلتا ہے کہ امّ ولد کی بیع حرام نہیں ہے۔ لیکن کراہت ضرور موجود ہے۔