مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 478

كِتَابُ الْعِتْقِ وَ الْمَكَاتِبِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ مَالَهُ عِنْدَ مُفْلِسٍ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ، وَالْعُمْرَى جَائِزَةٌ، وَالْعَبْدُ إِذَا كَانَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ ضُمِنَ لِصَاحِبِهِ.

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 478

غلاموں کی آزازی اور مکاتبت کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق روایت کیا جو کسی مفلس شخص کے ہاں اپنا مال بالکل اسی طرح پا لیتا ہے تو وہ کسی اور سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور عمریٰ جائز ہے، اور جب غلام دو آدمیوں کا مشترک مملوک ہو تو ان میں سے ایک اپنا حصہ اپنے ساتھی (شراکت دار) کے لیے آزاد کر دے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو ادھار چیز فروخت کی ہو اور پھر خریدار کنگال ہو جائے اور اس کے پاس اس چیز کی قیمت ادا کرنے کی طاقت نہ ہو بائع اگر اپنی چیز خریدار کے پاس بعینہٖ پا لیتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی چیز اس سے وصول کرے۔ جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ وہ اپنی چیز کا حقدار نہیں، بلکہ اسے بھی دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہی حصہ ملے گا۔ (کتاب الام: ۳؍ ۲۲۹۔ المغنی: ۶؍ ۵۳۸) جمہور کا موقف راجح ہے۔ اگر خریدار قیمت کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوجائے تو پھر بعینہٖ اپنی چیز پانے والا اس کا زیادہ حقدار ہوگا یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس صورت میں بائع اپنی چیز کا زیادہ حقدار ہوگا۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۳۴۶) لیکن اگر خریدنے والے نے اس چیز کی ساری قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی تو پھر وہ چیز مقروض کی ملکیت میں ہے اور پھر وہ چیز تمام قرض خواہوں میں تقسیم ہوگی، بائع اس کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنی کوئی چیز بیچی، وہ چیز اسے دیوالیہ قرار دیے ہوئے شخص کے پاس بعینہٖ مل گئی، جب کہ اس نے ابھی اس کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہیں کیا تھا۔ تو وہ اس (بیچنے والے) کی ہے اور اگر اس نے قیمت کا کچھ حصہ وصول کر لیا ہو، تو وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کے حکم میں ہے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۲۳۵۹)
تخریج : مسلم، کتاب المساقاۃ، باب من ادك ما باعه الخ، رقم: ۱۵۵۹۔ مسند احمد، رقم: ۹۳۰۹۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۵۰۳۶۔ سنن ترمذي، رقم: ۱۲۶۲۔ مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو ادھار چیز فروخت کی ہو اور پھر خریدار کنگال ہو جائے اور اس کے پاس اس چیز کی قیمت ادا کرنے کی طاقت نہ ہو بائع اگر اپنی چیز خریدار کے پاس بعینہٖ پا لیتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی چیز اس سے وصول کرے۔ جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ وہ اپنی چیز کا حقدار نہیں، بلکہ اسے بھی دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہی حصہ ملے گا۔ (کتاب الام: ۳؍ ۲۲۹۔ المغنی: ۶؍ ۵۳۸) جمہور کا موقف راجح ہے۔ اگر خریدار قیمت کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوجائے تو پھر بعینہٖ اپنی چیز پانے والا اس کا زیادہ حقدار ہوگا یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس صورت میں بائع اپنی چیز کا زیادہ حقدار ہوگا۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۳۴۶) لیکن اگر خریدنے والے نے اس چیز کی ساری قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی تو پھر وہ چیز مقروض کی ملکیت میں ہے اور پھر وہ چیز تمام قرض خواہوں میں تقسیم ہوگی، بائع اس کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنی کوئی چیز بیچی، وہ چیز اسے دیوالیہ قرار دیے ہوئے شخص کے پاس بعینہٖ مل گئی، جب کہ اس نے ابھی اس کی قیمت میں سے کچھ بھی وصول نہیں کیا تھا۔ تو وہ اس (بیچنے والے) کی ہے اور اگر اس نے قیمت کا کچھ حصہ وصول کر لیا ہو، تو وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کے حکم میں ہے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۲۳۵۹)