كِتَابُ الرَّهْنِ وَ الإِجَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا زَكَرِيَا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ نَفَقَتُهُ))
گروی اور اجارہ کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب سواری والا جانور رہن ہو تو اس پر خرچ کرنے کی وجہ سے اس پر سواری کی جائے گی اور دودھ والے جانور کا دودھ پیا جائے گا اور جو سواری کرے گا اور دودھ پئے گا وہی خرچہ برداشت کرے گا۔‘‘
تشریح :
رہن کا مطلب یہ ہے کہ قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا اور اس کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ملتا ہے۔ ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳)
’’اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاري، رقم : ۲۰۶۹)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا رہن قبضے میں رکھنے والا اگر کوئی جانور رکھے گا،جب اس پر خرچ کرے گا تو فائدہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کیا ہر گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا کہ نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
امام شافعی، امام مالک; کا موقف ہے کہ اگر اصل مالک نے اس کی اجازت دی ہے یا جس کے پاس وہ چیز گروی پڑی ہے، اس نے شرط لگائی ہے تو تب فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: صرف اتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنے اس پر اخراجات آرہے ہیں۔ (بدایة المجتهد: ۲؍ ۲۷۳۔ نیل الاوطار: ۳؍۶۲۰)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: مطلقاً گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے۔ (اعلام الموقعین: ۲؍ ۴۱۱)
لیکن مذکورہ حدیث سے یہی سمجھ آتی ہے کہ جتنا خرچہ چیز پر آئے، اس کے مطابق فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لہٰذا یہ حکم گھر یا دکان کے بارے میں لازم نہیں آئے گا۔ بلکہ دکان کا کرایہ یا گھر کا کرایہ اصل مالک کو ہی دیا جائے گا۔
تخریج :
بخاري، کتاب الرهن، باب الرهن مرکوب ومحلوب، رقم: ۲۵۱۲۔ سنن ابي داود، کتاب الاجارة، باب في الرهن، رقم: ۳۵۲۶۔ سنن ترمذي، رقم: ۱۲۵۴۔
رہن کا مطلب یہ ہے کہ قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا اور اس کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ملتا ہے۔ ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳)
’’اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاري، رقم : ۲۰۶۹)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا رہن قبضے میں رکھنے والا اگر کوئی جانور رکھے گا،جب اس پر خرچ کرے گا تو فائدہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کیا ہر گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا کہ نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
امام شافعی، امام مالک; کا موقف ہے کہ اگر اصل مالک نے اس کی اجازت دی ہے یا جس کے پاس وہ چیز گروی پڑی ہے، اس نے شرط لگائی ہے تو تب فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: صرف اتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنے اس پر اخراجات آرہے ہیں۔ (بدایة المجتهد: ۲؍ ۲۷۳۔ نیل الاوطار: ۳؍۶۲۰)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: مطلقاً گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے۔ (اعلام الموقعین: ۲؍ ۴۱۱)
لیکن مذکورہ حدیث سے یہی سمجھ آتی ہے کہ جتنا خرچہ چیز پر آئے، اس کے مطابق فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لہٰذا یہ حکم گھر یا دکان کے بارے میں لازم نہیں آئے گا۔ بلکہ دکان کا کرایہ یا گھر کا کرایہ اصل مالک کو ہی دیا جائے گا۔