كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ اَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ، نَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُوْفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهٗ مَرْهُوْنَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ مِّنْ یَهُوْدٍ بِثَلَاثِیْنَ صَاعًا مِّنْ شَعِیرٍ، اَخَذَهٗ طَعَامًا لِاَهْلِه
خريد و فروخت کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کی زرہ تیس صاع جو کے عوض، جو کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے کھانے کے واسطے لیے تھے، ایک یہودی شخص کے ہاں گروی تھی۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے۔ گروی کا مطلب کیا ہے، قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳)
’’اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں (قرض کا لین دین) لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضے میں رکھ لیا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے لین دین کرنا جائز ہے۔
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود داری بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے مالدار بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ تیسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ آتا تھا، جو آپ کے لیے تھا لیکن اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ضروریات کے لیے خرچ کردیتے تھے۔ (کیا مرتہن کے لیے رہن رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانا جائز ہے ؟ ) اگر ضرورت ہو تو رہن رکھے ہوئے جانور کو چارے کے عوض سواری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا اور اس کا دودھ بھی استعمال کرنا جائز ہے۔
تخریج :
سنن ترمذي، ابواب البیوع، باب ماجاء في الرخصة في الشراء الی اجل، رقم: ۱۲۱۴۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۱؍ ۳۰۰۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۴۳۹۔ سنن کبری بیهقي: ۶؍ ۳۶۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے۔ گروی کا مطلب کیا ہے، قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳)
’’اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں (قرض کا لین دین) لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضے میں رکھ لیا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے لین دین کرنا جائز ہے۔
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود داری بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے مالدار بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ تیسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ آتا تھا، جو آپ کے لیے تھا لیکن اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ضروریات کے لیے خرچ کردیتے تھے۔ (کیا مرتہن کے لیے رہن رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانا جائز ہے ؟ ) اگر ضرورت ہو تو رہن رکھے ہوئے جانور کو چارے کے عوض سواری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا اور اس کا دودھ بھی استعمال کرنا جائز ہے۔