كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، نا سُفْيَانُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيَسْأَلَنَّكُمُ النَّاسُ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى يَقُولُوا: هَذَا اللَّهُ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ، فَمَنْ خَلَقَهُ؟ " قَالَ جَعْفَرٌ: فحَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَأَنَّهُ رَفَعَهُ قَالَ: " فَإِنْ سُئِلْتُمْ فَقُولُوا: اللَّهُ كَانَ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَهُوَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ، وَهُوَ بَعْدَ كُلِّ شَيْءٍ ".
ايمان کابیان
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ تم سے ہر چیز کے متعلق پوچھیں گے حتیٰ کہ وہ کہیں گے: ان سب چیزوں کو تو اللہ نے پیدا فرمایا ہے تو پھر اسے کس نے پیدا فرمایا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم سے (اس طرح کا سوال) پوچھا جائے تو کہو: اللہ ہر چیز سے پہلے موجود تھا، اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا، اور وہی ہر چیز کے بعد بھی ہوگا۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے دل میں شیطان ایسے وسوسے ڈالتا ہے جو ایمان کے خلاف ہوتے ہیں۔ ایسی باتیں عموماً اہل ایمان کو پیش آتی ہیں کیونکہ شیطان ایمان کا دشمن ہے، اس لیے اہل ایمان پر ہی اس کے وسوسوں کا بکثرت ورود ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاِذَا بَلَغَهٗ فَلْیَسَتَعِذْ بِاللّٰهِ وَلْیَنْتَهِ)).... ’’جب کسی کو ایسا تردد لاحق ہو جائے تو وہ شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور اپنی توجہ اس وسوسہ سے ہٹا لے۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۳۲۷۶۔ صحیح مسلم، رقم : ۲۱۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے جب یہ خیال آئے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہو:
((اَللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَّکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌ)) ( سنن ابي داود، کتاب السنۃ: ۴۷۲۲)
اسی طرح معوذتین کی تلاوت صبح وشام تین تین مرتبہ اور ہر نماز کے بعد ایک ایک مرتبہ کرنی چاہیے تاکہ شیطان کے وسوسوں سے بچا جا سکے۔
تخریج :
بخاري، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابلیس وجنوده، رقم: ۳۲۷۶۔ مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسة فی الایمان الخ، رقم: ۱۳۵۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۷۲۱۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۸۲۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے دل میں شیطان ایسے وسوسے ڈالتا ہے جو ایمان کے خلاف ہوتے ہیں۔ ایسی باتیں عموماً اہل ایمان کو پیش آتی ہیں کیونکہ شیطان ایمان کا دشمن ہے، اس لیے اہل ایمان پر ہی اس کے وسوسوں کا بکثرت ورود ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاِذَا بَلَغَهٗ فَلْیَسَتَعِذْ بِاللّٰهِ وَلْیَنْتَهِ)).... ’’جب کسی کو ایسا تردد لاحق ہو جائے تو وہ شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور اپنی توجہ اس وسوسہ سے ہٹا لے۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۳۲۷۶۔ صحیح مسلم، رقم : ۲۱۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے جب یہ خیال آئے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہو:
((اَللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَّکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌ)) ( سنن ابي داود، کتاب السنۃ: ۴۷۲۲)
اسی طرح معوذتین کی تلاوت صبح وشام تین تین مرتبہ اور ہر نماز کے بعد ایک ایک مرتبہ کرنی چاہیے تاکہ شیطان کے وسوسوں سے بچا جا سکے۔