كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ: کُنَّا نُخَابِرُ فَـلَا نَرٰی بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتّٰی زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهٰی عَنْهُ
خريد و فروخت کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم بٹائی پر کاشت کاری کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، حتیٰ کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
تشریح :
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں میں نے سیّدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ زمین کو سونے چاندی کے عوض کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس طرح کرتے تھے کہ جو کچھ پانی کے بہاؤ پر اور نالوں کے سروں پر ہوتا، اس پر اور کچھ کھیتی پر معاملہ طے کرتے تھے۔ تو پھر ایسے ہوتا کہ یہ ضائع ہوجاتی وہ بچ جاتی، یا وہ ضائع ہوجاتی اور یہ بچ رہتی۔ لوگوں کو زمین کرائے پر دینے کی بس یہی ایک صورت رائج تھی، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے سے ڈانٹ کر روک دیا۔ لیکن وہ عوض اور بدلہ جو معلوم ومتعین ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، رقم : ۱۵۴۷۔ سنن ابي داود، رقم : ۳۳۹۲)
معلوم ہوا نقدی یا معلوم منافع کے بدلے زمین کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں جو ممانعت ہے، اس سے مراد خاص حصے کی پیداوار ہے، جیسا کہ عہد نبوی میں لوگ کیا کرتے تھے اور اس کا نقصان ہوتا۔ کبھی ٹھیکے پہ لینے والے کو اور کبھی زمین کے اصل مالک کو، جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا ہوتا، تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ لہٰذا معین پیداوار، سونا، چاندی یا نقدی وغیرہ پر اگر زمین ٹھیکے پر دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
تخریج :
بخاري، کتاب الحرث والمزارعة، باب ما کان من اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم یواشی الخ، رقم: ۲۳۴۴۔ مسلم، کتاب البیوع، باب کراء الارض، رقم: ۱۵۴۷۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۳۸۹۔ سنن نسائي، رقم: ۳۸۶۷۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں میں نے سیّدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ زمین کو سونے چاندی کے عوض کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس طرح کرتے تھے کہ جو کچھ پانی کے بہاؤ پر اور نالوں کے سروں پر ہوتا، اس پر اور کچھ کھیتی پر معاملہ طے کرتے تھے۔ تو پھر ایسے ہوتا کہ یہ ضائع ہوجاتی وہ بچ جاتی، یا وہ ضائع ہوجاتی اور یہ بچ رہتی۔ لوگوں کو زمین کرائے پر دینے کی بس یہی ایک صورت رائج تھی، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے سے ڈانٹ کر روک دیا۔ لیکن وہ عوض اور بدلہ جو معلوم ومتعین ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، رقم : ۱۵۴۷۔ سنن ابي داود، رقم : ۳۳۹۲)
معلوم ہوا نقدی یا معلوم منافع کے بدلے زمین کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں جو ممانعت ہے، اس سے مراد خاص حصے کی پیداوار ہے، جیسا کہ عہد نبوی میں لوگ کیا کرتے تھے اور اس کا نقصان ہوتا۔ کبھی ٹھیکے پہ لینے والے کو اور کبھی زمین کے اصل مالک کو، جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا ہوتا، تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ لہٰذا معین پیداوار، سونا، چاندی یا نقدی وغیرہ پر اگر زمین ٹھیکے پر دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔