مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 446

كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا فُضَيْلٌ، وَهُوَ ابْنُ غَزْوَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ، فَمَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، وَالذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ فَمَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، وَلَا تُبَاعُ تَمْرَةٌ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 446

خريد و فروخت کے احکام و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر ہم وزن بیع کی جائے، پس جو زائد ہو تو وہ سود ہے اور سونا سونے کے بدلے میں برابر برابر ہم وزن بیع کیا جائے پس جو زیادہ ہو تو وہ سود ہے اور کھجوروں کی بیع نہ کی جائے حتیٰ کہ ان (کے پکنے) کی صلاحیت ظاہر ہو جائے۔‘‘
تشریح : (۱).... سود کی دو اقسام فقہاء نے بیان کی ہیں: (۱) ربا الفضل:.... ایک جنس کی دو اشیا کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔ (۲) ربا النسیئة:.... اس میں کمی بیشی تو نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار کا معاملہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور نقد بنقد (فروخت کیا جائے) اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر جیسے چاہو فروخت کرو بشرطیکہ قیمت کی ادائیگی نقد بنقد ہو۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم : ۱۵۸۷) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ جن چھ اشیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کا آپس میں ہم جنس سے یعنی سونے کا سونے سے اور چاندی کا چاندی سے مبادلہ میں کمی بیشی حرام ہے اور دوسری بات اگر برابر برابر بھی ہو تو شرط یہ ہے کہ نقد بنقد ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: سونا سونے کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک ہو، چاندی چاندی کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک جیسی ہو، پھر اگر کوئی زیادہ لے یا زیادہ دے تو وہ سود ہے۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم : ۱۵۸۸) اور اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر کمی بیشی جائز ہے۔ مثلاً ایک صاع کھجوریں دے کر دو صاع گندم لینا، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی قیمت نقد ادا کی جائے یا وہ چیز نقد دی جائے اور اگر اُدھار ہو تو فریقین کی رضا مندی اور جنس و دت کا تعین ضروری ہے۔ (۲).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھجوروں کی بیع نہیں کرنی چاہیے، جب تک ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ ممانعت کا سبب دھوکہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم، رقم : ۱۵۱۳۔ سنن ابي داود، رقم : ۳۳۷۶)
تخریج : مسلم، کتاب المساقاة، باب الصرف وبیع الذهب بالورق ....، رقم : ۱۵۸۸۔ سنن ترمذي، رقم: ۱۲۴۰۔ سنن نسائي، رقم: ۴۵۶۹۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۶۲۔ (۱).... سود کی دو اقسام فقہاء نے بیان کی ہیں: (۱) ربا الفضل:.... ایک جنس کی دو اشیا کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔ (۲) ربا النسیئة:.... اس میں کمی بیشی تو نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار کا معاملہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور نقد بنقد (فروخت کیا جائے) اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر جیسے چاہو فروخت کرو بشرطیکہ قیمت کی ادائیگی نقد بنقد ہو۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم : ۱۵۸۷) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ جن چھ اشیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کا آپس میں ہم جنس سے یعنی سونے کا سونے سے اور چاندی کا چاندی سے مبادلہ میں کمی بیشی حرام ہے اور دوسری بات اگر برابر برابر بھی ہو تو شرط یہ ہے کہ نقد بنقد ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: سونا سونے کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک ہو، چاندی چاندی کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک جیسی ہو، پھر اگر کوئی زیادہ لے یا زیادہ دے تو وہ سود ہے۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم : ۱۵۸۸) اور اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر کمی بیشی جائز ہے۔ مثلاً ایک صاع کھجوریں دے کر دو صاع گندم لینا، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی قیمت نقد ادا کی جائے یا وہ چیز نقد دی جائے اور اگر اُدھار ہو تو فریقین کی رضا مندی اور جنس و دت کا تعین ضروری ہے۔ (۲).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھجوروں کی بیع نہیں کرنی چاہیے، جب تک ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ ممانعت کا سبب دھوکہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم، رقم : ۱۵۱۳۔ سنن ابي داود، رقم : ۳۳۷۶)