كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ اَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، نَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّه نَهٰی اَنْ یَّبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا قَوْلُهٗ: لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ قَالَ: لَا یَکُنْ لَهٗ سِمْسَارًا
خريد و فروخت کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ شہری کسی دیہاتی کی طرف سے بیع نہ کرے۔ راوی نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کے فرمان: ’’شہری کسی دیہاتی کی طرف سے بیع نہ کرے۔‘‘ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس کا ایجنٹ (بروکر) نہ بنے۔
تشریح :
مذکورہ حدیث میں ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ ایک اجنبی دیہاتی سے یا دوسرے شہر سے ایسا ساز وسامان جس کی سبھی کو ضرورت ہے اس روز کے نرخ کے مطابق فروخت کرنے کے لیے لے کر آتا ہے، مگر اسے شہری کہتا ہے کہ اس سامان کو میرے پاس چھوڑ دو، تاکہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر بیچ دوں۔ (شرح مسلم للنووی: ۵؍ ۴۲۵)
بعض کہتے ہیں کہ شہری آدمی بدوی کو شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں جا کر ملے، تاکہ بھاؤ کے متعلق غلط بیانی کر کے اس سے سامان سستے داموں خریدے اور اس کی اصل قیمت سے کم قیمت پر اس سے حاصل کرے، شریعت نے منع اس لیے کیا ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکہ دہی اور ضرر رسانی سے بچ جائے۔ لیکن اگر شہری دیہاتی کا مال فروخت کرتا ہے بغیر کمیشن اور بغیر کسی لالچ کے تو امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: ((بَابٌ ہَلْ یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِّبَادٍ بِغَیْرِ اَجْرٍ؟ وَهَلْ یُعِیْنُهٗ اَوْ یَنْصَحُهٗ)) (بخاري، کتاب البیوع: باب ۶۸).... ’’کیا کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان کسی اجرت کے بغیر بیچ سکتا ہے؟‘‘ اور کیا وہ اس کی مدد یا اس کو نصیحت کر سکتا ہے؟
اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس کے ساتھ ذکر کیا: ((اِذَا اسْتَنْصَحَ اَحَدُکُمْ اَخَاهٗ فَلْیَنْصَحُ لَهٗ)).... ’’جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے خیر خواہی کا طالب ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ کوئی کسی بیع پر بیع نہ کرے اور منگنی پر منگنی نہ کرے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ (دیکھئے اس کے لیے شرح حدیث نمبر ۱۵۵)
اگر جانور خرید لیا واپس کرنا ہے تو ایک صاع ساتھ دے۔ (مزید دیکھئے شرح حدیث نمبر۶۲)
تخریج :
بخاري، کتاب البیوع، باب هل یبیع حاضر لباد الخ، رقم: ۲۱۵۸۔ مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الحاضر للبادی، رقم: ۱۵۲۱۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۴۳۹۔ سنن نسائي، رقم: ۴۵۰۰۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۱۷۷۔ مسند احمد، رقم : ۳۶۸۔
مذکورہ حدیث میں ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ ایک اجنبی دیہاتی سے یا دوسرے شہر سے ایسا ساز وسامان جس کی سبھی کو ضرورت ہے اس روز کے نرخ کے مطابق فروخت کرنے کے لیے لے کر آتا ہے، مگر اسے شہری کہتا ہے کہ اس سامان کو میرے پاس چھوڑ دو، تاکہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر بیچ دوں۔ (شرح مسلم للنووی: ۵؍ ۴۲۵)
بعض کہتے ہیں کہ شہری آدمی بدوی کو شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں جا کر ملے، تاکہ بھاؤ کے متعلق غلط بیانی کر کے اس سے سامان سستے داموں خریدے اور اس کی اصل قیمت سے کم قیمت پر اس سے حاصل کرے، شریعت نے منع اس لیے کیا ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکہ دہی اور ضرر رسانی سے بچ جائے۔ لیکن اگر شہری دیہاتی کا مال فروخت کرتا ہے بغیر کمیشن اور بغیر کسی لالچ کے تو امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: ((بَابٌ ہَلْ یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِّبَادٍ بِغَیْرِ اَجْرٍ؟ وَهَلْ یُعِیْنُهٗ اَوْ یَنْصَحُهٗ)) (بخاري، کتاب البیوع: باب ۶۸).... ’’کیا کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان کسی اجرت کے بغیر بیچ سکتا ہے؟‘‘ اور کیا وہ اس کی مدد یا اس کو نصیحت کر سکتا ہے؟
اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس کے ساتھ ذکر کیا: ((اِذَا اسْتَنْصَحَ اَحَدُکُمْ اَخَاهٗ فَلْیَنْصَحُ لَهٗ)).... ’’جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے خیر خواہی کا طالب ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ کوئی کسی بیع پر بیع نہ کرے اور منگنی پر منگنی نہ کرے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ (دیکھئے اس کے لیے شرح حدیث نمبر ۱۵۵)
اگر جانور خرید لیا واپس کرنا ہے تو ایک صاع ساتھ دے۔ (مزید دیکھئے شرح حدیث نمبر۶۲)