مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 430

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ اَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَیْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُسْلِمَ الْبِطِّیْنَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهٗ وَقَالَ قَضَی عَنْهَا

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 430

روزوں کےاحکام و مسائل باب سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مثل روایت کیا ہے اور بیان کیا: اس نے اس (اپنی والدہ) کی طرف سے (روزے) ادا کیے۔
تشریح : مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا میت کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے اور اس میں نیابت درست ہے۔ کیا میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے یا مستحب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۲۱۴) علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے۔ (المحلی بالاثار: ۴؍ ۴۲۰) شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ عمل واجب نہیں ہے۔ (التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة: ۲؍ ۲۵) مولانا داود راز رحمہ اللہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بات نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں: ایک میت کے اعتبار سے، کیونکہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا، اس سے فوت ہوگئی ہے۔ اس لیے وہ نفوس رنج والم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے، اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس شخص کے قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے۔ اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کیے مر گیا، تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہیے۔ (شرح بخاری از مولانا داود راز، مطبوعہ : ۳؍ ۲۰۵، ۲۰۶ بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الایمان والنذور، باب قضاء النذر عن المیت، رقم: ۳۳۰۷۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا میت کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے اور اس میں نیابت درست ہے۔ کیا میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے یا مستحب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۲۱۴) علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے۔ (المحلی بالاثار: ۴؍ ۴۲۰) شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ عمل واجب نہیں ہے۔ (التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة: ۲؍ ۲۵) مولانا داود راز رحمہ اللہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بات نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں: ایک میت کے اعتبار سے، کیونکہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا، اس سے فوت ہوگئی ہے۔ اس لیے وہ نفوس رنج والم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے، اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس شخص کے قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے۔ اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کیے مر گیا، تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہیے۔ (شرح بخاری از مولانا داود راز، مطبوعہ : ۳؍ ۲۰۵، ۲۰۶ بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ)