مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 427

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ اَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ عَمْرٍو الْحَضْرَمِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَاءِ اُمِرْنَا اَنْ نُعَجِّلَ الْاِفْطَارَ، وَنُؤَخِّرَ السَّحُوْرَ، وَاَنْ نَقْبِضَ بِاِیْمَانَنَا عَلٰی شَمَائِلِنَا فِی الصَّلَاةِ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 427

روزوں کےاحکام و مسائل باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم انبیاء(علیہم السلام) کی جماعت ہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم (افطاری کا وقت ہوتے ہی) افطار کرنے میں جلدی کریں اور سحری کو مؤخر کریں اور یہ کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھوں کے ساتھ بائیں ہاتھوں کو پکڑیں۔‘‘
تشریح : (۱) معلوم ہوا افطاری جلدی اور سحری کو مؤخر کرنا مستحب ہے۔ سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ ہمیشہ خیر وعافیت سے رہیں گے، جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔‘‘ (بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۷۔ مسلم، رقم : ۱۰۹۸) لوگ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے، دین ہمیشہ غالب رہے گا، کیونکہ یہود نصاریٰ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ (صحیح ابوداود، رقم : ۲۰۶۳) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے جلدی افطار کرتے اور سب سے تاخیر سے سحری کھاتے۔ ( فتح الباري: ۴؍ ۷۱۳) (۲) معلوم ہوا دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کو پکڑنا چاہیے، جو لوگ تین انگلیاں اوپر رکھ لیتے ہیں یہ درست نہیں، ہاتھوں کو کس جگہ پر رکھنا چاہیے۔ سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم وَوَضَعَ یَدَهٗ الْیُمْنٰی عَلٰی الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِهٖ۔)) (صحیح ابن خزیمہ، رقم : ۴۷۹) .... ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے پر رکھا۔‘‘ سیّدنا ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔ (مسند احمد: ۵؍ ۲۲۶) سیّدنا سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھیں۔ (بخاري، کتاب الاذان، رقم : ۷۴۰) جب بائیں بازو (یعنی کلائی) پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا تو دونوں ہاتھ ازخود سینے پر آجائیں گے۔
تخریج : صحیح ابن حبان، رقم: ۱۷۷۰۔ سنن کبری بیهقي: ۴؍ ۲۳۸۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۲۲۸۶۔ (۱) معلوم ہوا افطاری جلدی اور سحری کو مؤخر کرنا مستحب ہے۔ سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ ہمیشہ خیر وعافیت سے رہیں گے، جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔‘‘ (بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۷۔ مسلم، رقم : ۱۰۹۸) لوگ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے، دین ہمیشہ غالب رہے گا، کیونکہ یہود نصاریٰ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ (صحیح ابوداود، رقم : ۲۰۶۳) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے جلدی افطار کرتے اور سب سے تاخیر سے سحری کھاتے۔ ( فتح الباري: ۴؍ ۷۱۳) (۲) معلوم ہوا دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کو پکڑنا چاہیے، جو لوگ تین انگلیاں اوپر رکھ لیتے ہیں یہ درست نہیں، ہاتھوں کو کس جگہ پر رکھنا چاہیے۔ سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم وَوَضَعَ یَدَهٗ الْیُمْنٰی عَلٰی الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِهٖ۔)) (صحیح ابن خزیمہ، رقم : ۴۷۹) .... ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے پر رکھا۔‘‘ سیّدنا ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔ (مسند احمد: ۵؍ ۲۲۶) سیّدنا سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھیں۔ (بخاري، کتاب الاذان، رقم : ۷۴۰) جب بائیں بازو (یعنی کلائی) پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا تو دونوں ہاتھ ازخود سینے پر آجائیں گے۔