مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 424

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ أَنَّهَا أَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ يَخْطُبُ فَشَرِبَهُ "

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 424

روزوں کےاحکام و مسائل باب سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ بھیجا جبکہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے اسے نوش فرمایا۔
تشریح : صحیح بخاری میں ہے سیّدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عرفہ کے روز کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا۔ کچھ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں اور بعض نے کہا کہ روزہ سے نہیں ہیں۔ اس پر سیّدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا۔ (تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے) آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی لیا۔ (بخاري، رقم : ۱۹۸۸) سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ’’عرفات میں روزہ رکھا جائے۔ ‘‘( سنن ابي داود، کتاب الصیام، رقم : ۲۴۴۰) یہ ممانعت حجاج کرام کے لیے ہے جبکہ غیر حجاج کے لیے یہ روزہ مشروع ہے۔ کیونکہ اس روزے کی بہت زیادہ فضیلت ہے، اس سے دو سالوں کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَیَامُ یَوْمِ عَرَفَةَ اَنِّیْ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰهِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِیْ قَبْلَهٗ وَالَّتِیْ بَعْدَہٗ۔)) (سنن ابن ماجة، رقم : ۱۷۳۰) .... ’’مجھے اللہ تعالیٰ پر یقین ہے کہ وہ یومِ عرفہ کے روزہ پر روزہ دار کے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف کردے گا۔‘‘
تخریج : بخاري، کتاب الصوم، باب صوم یوم عرفة، رقم: ۱۹۸۸۔ مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب الفطر للحاج یوم عرفه، رقم: ۱۱۲۴۔ سنن ابي داود، رقم: ۲۴۴۱۔ صحیح بخاری میں ہے سیّدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عرفہ کے روز کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا۔ کچھ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں اور بعض نے کہا کہ روزہ سے نہیں ہیں۔ اس پر سیّدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا۔ (تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے) آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی لیا۔ (بخاري، رقم : ۱۹۸۸) سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ’’عرفات میں روزہ رکھا جائے۔ ‘‘( سنن ابي داود، کتاب الصیام، رقم : ۲۴۴۰) یہ ممانعت حجاج کرام کے لیے ہے جبکہ غیر حجاج کے لیے یہ روزہ مشروع ہے۔ کیونکہ اس روزے کی بہت زیادہ فضیلت ہے، اس سے دو سالوں کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَیَامُ یَوْمِ عَرَفَةَ اَنِّیْ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰهِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِیْ قَبْلَهٗ وَالَّتِیْ بَعْدَہٗ۔)) (سنن ابن ماجة، رقم : ۱۷۳۰) .... ’’مجھے اللہ تعالیٰ پر یقین ہے کہ وہ یومِ عرفہ کے روزہ پر روزہ دار کے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف کردے گا۔‘‘