كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، أَوِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنَ أُمِّ كُلْثُومٍ أَوْ أَذَانَ بِلَالٍ)) ، وَمَا كَانَ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَصْعَدُ هَذَا "، قَالَتْ: لَكِنَّا نَقُولُ لَهُ: انْتَظِرْ حَتَّى نَتَسَحَّرَ
روزوں کےاحکام و مسائل
باب
خبیب بن عبدالرحمن نے اپنی پھوپھی سے روایت کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، یا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں، پس تم (سحری کا کھانا) کھاتے رہا کرو حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو، ان دونوں میں بس اتنا ہی فرق تھا کہ یہ نیچے اترتے تھے اور وہ (چھت کے) اوپر چڑھتے تھے، انہوں (راویہ) نے بیان کیا: ہم انہیں کہا کرتے تھے: انتظار کرو حتیٰ کہ ہم سحری کھا لیں۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں صبح کے وقت اذان دینے کے لیے دو مؤذن ہوا کرتے تھے اور دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان کا مقصد یہ تھا کہ اگر روزے دار سحری کھا رہے ہیں یا کوئی نفل ونوافل پڑھ رہا ہے تو متنبہ ہوجائیں۔ جمہور کا موقف ہے کہ نماز فجر کا وقت آنے سے پہلے اذان کہنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ اذان جائز نہیں ہے۔ (کتاب الأم للشافعي: ۱؍۱۷۰)
شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ نماز فجر سے پہلے اذان تہجد دینا ایسی سنت ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یقینا ایسے شخص کے لیے مبارک ہے جو اسے بتوفیق الٰہی زندہ کرے۔ (تمام المنة، ص:۱۴۸)
مذکرہ بالا حدیث میں رات کی اذان کے لیے سیّدنا بلال یا سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دونوں کا تذکرہ آتا ہے، اسی طرح فجر کی اذان کے متعلق بھی دونوں کا تذکرہ آتا ہے۔ اس کے متعلق علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے، ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا بلال اور سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو باری باری ہر دو اذانوں کے لیے مقرر کر رکھا ہو۔ (مرعاة المفاتیح: ۱؍ ۴۴۳)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلی اذان رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے، لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقل معمول تھا نہ کہ صرف رمضان میں۔
علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ صحیح نہیں کہ اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔ زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیر رمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسند عبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلال رات میں اذان دیتے ہیں پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے، اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہیں چاہیے۔ یہ ارشادِ نبوی غیر رمضان ہی سے متعلق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح: ۱؍ ۴۴۴)
تخریج :
بخاري، کتاب الاذان، باب اذان الاعمی اذا کان له من یخبره، رقم: ۶۱۷۔ مسلم، کتاب الصیام، باب بیان ان الدخول في الصوم الخ، رقم: ۱۰۹۲۔ سنن ترمذي، رقم: ۲۰۳۔ سنن نسائي، رقم: ۶۴۱۔ مسند احمد: ۶؍ ۴۳۳۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں صبح کے وقت اذان دینے کے لیے دو مؤذن ہوا کرتے تھے اور دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان کا مقصد یہ تھا کہ اگر روزے دار سحری کھا رہے ہیں یا کوئی نفل ونوافل پڑھ رہا ہے تو متنبہ ہوجائیں۔ جمہور کا موقف ہے کہ نماز فجر کا وقت آنے سے پہلے اذان کہنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ اذان جائز نہیں ہے۔ (کتاب الأم للشافعي: ۱؍۱۷۰)
شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ نماز فجر سے پہلے اذان تہجد دینا ایسی سنت ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یقینا ایسے شخص کے لیے مبارک ہے جو اسے بتوفیق الٰہی زندہ کرے۔ (تمام المنة، ص:۱۴۸)
مذکرہ بالا حدیث میں رات کی اذان کے لیے سیّدنا بلال یا سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دونوں کا تذکرہ آتا ہے، اسی طرح فجر کی اذان کے متعلق بھی دونوں کا تذکرہ آتا ہے۔ اس کے متعلق علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے، ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا بلال اور سیّدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو باری باری ہر دو اذانوں کے لیے مقرر کر رکھا ہو۔ (مرعاة المفاتیح: ۱؍ ۴۴۳)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلی اذان رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے، لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقل معمول تھا نہ کہ صرف رمضان میں۔
علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ صحیح نہیں کہ اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔ زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیر رمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسند عبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلال رات میں اذان دیتے ہیں پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے، اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہیں چاہیے۔ یہ ارشادِ نبوی غیر رمضان ہی سے متعلق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح: ۱؍ ۴۴۴)