مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 415

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا بِاللَّهِ وَتَصْدِيقًا بِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 415

روزوں کےاحکام و مسائل باب اسی سند (سابقہ ۴۷۹) سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے شب قدر کا قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے لیلۃ القدر کے قیام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے اگر کوئی ایمان کے بغیر عمل کرتا ہے، وہ خدمت خلق، صلہ رحمی، بیت اللہ کی تعمیر، حاجیوں کی خدمت کرنا ہی کیوں نہ ہو، وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، بلکہ اللہ کے ہاں بالکل بے وزن ہوں گے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَعْمَالُهُمْ کَسَرَابٍ بِّقِیعَةٍ یَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتّٰی اِِذَا جَاء لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَہٗ فَوَفَّاهُ حِسَابَهٗ﴾ (النور: ۳۹) .... ’’اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں، جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے، لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے۔‘‘ مزید سورۃ القدر کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ گناہوں کی معافی سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، نہ کہ کبیرہ لیکن بعض اوقات کسی نیکی کہ وجہ سے اللہ ذوالجلال بڑے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الایمان، باب قیام لیلة القدر من الایمان، رقم: ۳۵۔ مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب الترغیب في قیام رمضان وهو التراویح، رقم: ۷۶۰۔ سنن ابي داود، رقم: ۱۳۷۲۔ سنن ترمذي، رقم: ۶۸۳۔ سنن نسائي، رقم: ۲۲۰۲۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۱۳۲۶۔ مذکورہ حدیث سے لیلۃ القدر کے قیام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے اگر کوئی ایمان کے بغیر عمل کرتا ہے، وہ خدمت خلق، صلہ رحمی، بیت اللہ کی تعمیر، حاجیوں کی خدمت کرنا ہی کیوں نہ ہو، وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، بلکہ اللہ کے ہاں بالکل بے وزن ہوں گے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَعْمَالُهُمْ کَسَرَابٍ بِّقِیعَةٍ یَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتّٰی اِِذَا جَاء لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَہٗ فَوَفَّاهُ حِسَابَهٗ﴾ (النور: ۳۹) .... ’’اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں، جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے، لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے۔‘‘ مزید سورۃ القدر کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ گناہوں کی معافی سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، نہ کہ کبیرہ لیکن بعض اوقات کسی نیکی کہ وجہ سے اللہ ذوالجلال بڑے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔