كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، نا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، قَالَ: تَضَيَّفْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ سَبْعًا، وَكَانَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ وَخَادِمُهُ يَعْتَقِبُونَ اللَّيْلَ أَثْلَاثًا، يَقُومُ هَذَا وَيَنَامُ هَذَا، وَيَقُومُ هَذَا وَيَنَامُ هَذَا، وَسَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرًا فَأَصَابَنِي سَبْعَ تَمَرَاتٍ، فَكَانَ فِيهِ حَشَفَةٌ، مَا كَانَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهَا شَدَّتْ فِي مَضَاغِي، قَالَ: سُلَيْمَانُ: أَيْ كَانَ لَهَا قُوَّةٌ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَكَيْفَ تَصُومُ الشَّهْرَ؟ فَقَالَ: أَصُومُ مِنْ أَوَّلِ الشَّهْرِ ثَلَاثًا، فَإِنْ حَدَثَ بِي حَدَثٌ كَانَ لِي أَجْرُ شَهْرِي
روزوں کےاحکام و مسائل
باب
ابوعثمان الہندی نے بیان کیا: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سات دن تک مہمان ٹھہرایا، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ان کے خادم تھے، انہوں نے رات کے تہائی تہائی حصے کی باری مقرر کی تھی، یہ قیام کرتے اور وہ سو جاتا اور یہ قیام کرتا تو وہ سو جاتے، اور میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں تقسیم کیں تو میرے حصے میں سات کھجوریں آئیں، ان میں ایک خراب خشک کھجور تھی وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی اس نے میرے کھجور چبانے کو مضبوط کر دیا۔
سلیمان نے کہا: یعنی اس کی قوت تھی، راوی نے بیان کیا، میں نے کہا: ابوہریرہ! آپ مہینے میں کس طرح روزہ رکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں مہینے کے شروع میں تین روزے رکھتا ہوں، پس اگر میرے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش آجائے تو میرے لیے مہینہ بھر کا اجر و ثواب ہے۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گھرانے اور آپ کا اللہ ذوالجلال کی عبادت کرنے کے شوق کا اثبات ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو عبادت اور ذکر الٰہی سے خاص شغف تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال سے لاپرواہ نہیں ہوتے تھے کہ خود تو عبادت کی، لیکن اہل وعیال کا پتہ ہی نہیں جیسے آج کل صورت حال ہے کہ باپ کا تعلق حزب اللہ سے ہے اور بیٹے کا تعلق حزب الشیطان سے ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا﴾ (طٰهٰ: ۱۳۲).... ’’اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جمارہ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں کھجوروں کی تقسیم کا ذکر ہے۔
جس سے مقصود یہ ہے کہ عہد نبوی میں معاشی حالات انتہائی تنگ تھے۔ لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام پر قائم رہے، اگر تنگی تھی تو انہوں نے صبر کیا اور فراخی ملی تو اللہ ذوالجلال کا شکر کیا، یعنی ہر حال میں خوش رہے۔
معلوم ہوا تین روزے مہینے میں جس وقت چاہیے رکھ لیں، مہینے کے شروع میں یا درمیان یا آخر میں لیکن افضل ایام بیض کے روزے ہیں۔ یہ وہ تین روزے ہیں جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی، بعض روایات میں ہے: ’’میں مہینے کے آخر میں رکھ لیتا ہوں۔‘‘ اور لفظ آخِرُ شَهْرِی کے منقول ہیں۔ جبکہ مذکورہ بالا روایت میں أَجْرُ شَهْرِی کے لفظ منقول ہیں۔
تخریج :
بخاري، کتاب الاطعمة، باب الحشف: ۵۴۴۱۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۵۳۔ ارواء الغلیل: ۴؍ ۱۰۰۔
مذکورہ حدیث سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گھرانے اور آپ کا اللہ ذوالجلال کی عبادت کرنے کے شوق کا اثبات ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو عبادت اور ذکر الٰہی سے خاص شغف تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال سے لاپرواہ نہیں ہوتے تھے کہ خود تو عبادت کی، لیکن اہل وعیال کا پتہ ہی نہیں جیسے آج کل صورت حال ہے کہ باپ کا تعلق حزب اللہ سے ہے اور بیٹے کا تعلق حزب الشیطان سے ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا﴾ (طٰهٰ: ۱۳۲).... ’’اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جمارہ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں کھجوروں کی تقسیم کا ذکر ہے۔
جس سے مقصود یہ ہے کہ عہد نبوی میں معاشی حالات انتہائی تنگ تھے۔ لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام پر قائم رہے، اگر تنگی تھی تو انہوں نے صبر کیا اور فراخی ملی تو اللہ ذوالجلال کا شکر کیا، یعنی ہر حال میں خوش رہے۔
معلوم ہوا تین روزے مہینے میں جس وقت چاہیے رکھ لیں، مہینے کے شروع میں یا درمیان یا آخر میں لیکن افضل ایام بیض کے روزے ہیں۔ یہ وہ تین روزے ہیں جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی، بعض روایات میں ہے: ’’میں مہینے کے آخر میں رکھ لیتا ہوں۔‘‘ اور لفظ آخِرُ شَهْرِی کے منقول ہیں۔ جبکہ مذکورہ بالا روایت میں أَجْرُ شَهْرِی کے لفظ منقول ہیں۔