كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَجَمَعَهُمْ فَعَمَّ، وَخَصَّ: ((يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ، وَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا)) .
ايمان کابیان
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب یہ آیت: ’’اپنے قریبی رشتے داروں کو آگاہ فرمائیں۔‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے عام وخاص کو جمع کیا اور فرمایا: ’’بنو کعب بن لؤیّ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبدشمس! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبدمناف! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، البتہ جو رشتے داری ہے میں اس تعلق کو نبھاؤں گا۔‘‘
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوری قوم کے لیے اور پوری نسل انسانی کے لیے تھی لیکن ترجیحاً اپنے رشتے داروں کے لیے تھی جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے توحید کی دعوت اپنے باپ آزر کو دی۔
دوسری روایت میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت: ﴿وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (الشعراء: ۲۱۴) نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی: ’’یا صباحا‘‘ (یہ جملہ ایسے موقع پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بولا جاتا تھا جب کوئی عظیم واقعہ رونما ہوجاتا) سب لوگوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ گھوڑوں کا ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے نکلنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟‘‘
سب نے کہا: ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر میں تمہیں سخت ترین عذاب سے ڈراتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر ابولہب کھڑا ہوکر کہنے لگا: تیری تباہی ہو۔ کیا تو نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں سورۂ تبت نازل فرمائی۔ ( بخاري، رقم : ۴۹۷۱۔ مسلم، رقم : ۲۰۸)
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حسب ونسب کام نہیں آئے گا، بلکہ ایمان اور عمل صالح پر ہی نجات ہوگی جیسا کہ سیدنا نوح علیہ السلام نے جب اللہ ذوالجلال سے اپنے بیٹے کے متعلق دعا کی تو فرمایا: ﴿یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِکَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ﴾ (ہود: ۴۶) یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مشرک کافر کی نہ نجات ہوگی اور شفاعت بھی ان کے حق میں منظور نہیں ہوگی۔
حدیث کے آخر میں ہے رشتہ داری کے تعلق کو نبھاتا رہوں گا۔ مطلب یہ کہ صلہ رحمی کے طور پر مجھ سے جو ہو سکا وہ میں کروں گا۔ کیونکہ یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ معلوم ہوا مشرک رشتہ داروں سے بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے۔
تخریج :
مسلم، کتاب الایمان، باب في قوله تعالی ﴿وانذر عشیرتك الاقربین﴾، رقم: ۲۰۴۔ سنن ترمذي، رقم: ۳۱۸۴، ۳۱۸۵۔ سنن نسائي، رقم: ۳۶۴۴۔ مسند احمد: ۲؍۳۳۳۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوری قوم کے لیے اور پوری نسل انسانی کے لیے تھی لیکن ترجیحاً اپنے رشتے داروں کے لیے تھی جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے توحید کی دعوت اپنے باپ آزر کو دی۔
دوسری روایت میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت: ﴿وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (الشعراء: ۲۱۴) نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی: ’’یا صباحا‘‘ (یہ جملہ ایسے موقع پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بولا جاتا تھا جب کوئی عظیم واقعہ رونما ہوجاتا) سب لوگوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ گھوڑوں کا ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے نکلنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟‘‘
سب نے کہا: ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر میں تمہیں سخت ترین عذاب سے ڈراتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر ابولہب کھڑا ہوکر کہنے لگا: تیری تباہی ہو۔ کیا تو نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں سورۂ تبت نازل فرمائی۔ ( بخاري، رقم : ۴۹۷۱۔ مسلم، رقم : ۲۰۸)
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حسب ونسب کام نہیں آئے گا، بلکہ ایمان اور عمل صالح پر ہی نجات ہوگی جیسا کہ سیدنا نوح علیہ السلام نے جب اللہ ذوالجلال سے اپنے بیٹے کے متعلق دعا کی تو فرمایا: ﴿یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِکَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ﴾ (ہود: ۴۶) یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مشرک کافر کی نہ نجات ہوگی اور شفاعت بھی ان کے حق میں منظور نہیں ہوگی۔
حدیث کے آخر میں ہے رشتہ داری کے تعلق کو نبھاتا رہوں گا۔ مطلب یہ کہ صلہ رحمی کے طور پر مجھ سے جو ہو سکا وہ میں کروں گا۔ کیونکہ یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ معلوم ہوا مشرک رشتہ داروں سے بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے۔