مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 38

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا فُضَيْلٌ وَهُوَ ابْنُ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا: الدَّجَّالُ وَالدَّابَّةُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 38

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا، تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا نفع مند نہیں ہوگا، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا اس نے اپنے ایمان کی حالت میں کوئی بھلائی نہیں کی ہوگی: دجال، دابہ (جانور) اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا دجال کے ظہور کے بعد، دابۃ الارض کے نکلنے کے بعد اور سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونے کے بعد کسی کا ایمان لانا قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ ایمان تو وہ قابل قبول ہے جو غیب پر ہو۔ اور جب نشانیاں ظاہر ہوں گی تو اس وقت غیر مسلموں کو بھی یقین ہو جائے گا۔ (۱) دجال:.... قیامت کے قریب ایک آدمی ظاہر ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کے لیے بعض کاموں کی قدرت دیں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آزمائش کے لیے شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا اختیار دیا ہے۔ اور اس کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہوگا۔ جیسا کہ سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’ کہ آدم سے لے کر قیامت تک اللہ کی مخلوق میں سے (فتنہ) دجال سے بڑا اور کوئی (فتنہ) نہیں ہوگا۔ (مسلم، کتاب الفتن، واشراط الساعة، باب بقیة من احادیث الدجال) اور اس کے فتنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعوذ کرتے تھے۔ (۲) دابۃ الارض:.... قیامت کے قریب ایک جانور نکلے گا، جس کے نکلنے کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور یہ دابۃ الارض لوگوں سے باتیں کرے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُهمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (النمل: ۸۲) ’’جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا ہم زمین سے ان کے لیے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔‘‘ (۳).... سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا۔ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۳۹۹)
تخریج : مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الزمن الذي لا یقبل فیه الایمان، رقم: ۱۵۸۔ مسند ابي یعلیٰ، رقم : ۶۱۷۰۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا دجال کے ظہور کے بعد، دابۃ الارض کے نکلنے کے بعد اور سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونے کے بعد کسی کا ایمان لانا قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ ایمان تو وہ قابل قبول ہے جو غیب پر ہو۔ اور جب نشانیاں ظاہر ہوں گی تو اس وقت غیر مسلموں کو بھی یقین ہو جائے گا۔ (۱) دجال:.... قیامت کے قریب ایک آدمی ظاہر ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کے لیے بعض کاموں کی قدرت دیں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آزمائش کے لیے شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا اختیار دیا ہے۔ اور اس کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہوگا۔ جیسا کہ سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’ کہ آدم سے لے کر قیامت تک اللہ کی مخلوق میں سے (فتنہ) دجال سے بڑا اور کوئی (فتنہ) نہیں ہوگا۔ (مسلم، کتاب الفتن، واشراط الساعة، باب بقیة من احادیث الدجال) اور اس کے فتنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعوذ کرتے تھے۔ (۲) دابۃ الارض:.... قیامت کے قریب ایک جانور نکلے گا، جس کے نکلنے کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور یہ دابۃ الارض لوگوں سے باتیں کرے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُهمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (النمل: ۸۲) ’’جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا ہم زمین سے ان کے لیے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔‘‘ (۳).... سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا۔ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۳۹۹)