مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 372

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ اَخْبَرَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، نَا عُبَیْدُاللّٰهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْ یَّبِیْتَ بِمَکَّةَ اَیَّامَ مِنًی، مِنْ اَجْلِ سِقَایتِهٖ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 372

اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ان کے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے ایام منیٰ مکہ میں رات گزارنے کی اجازت دی۔
تشریح : منیٰ کے ایام (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ) جن میں حاجی منیٰ میں رہتے ہیں، ان ایام کی راتیں منی میں گزارنی چاہئیں۔ لیکن اگر عذر مجبوری ہو تو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے میں رخصت ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، اسی طرح سیّدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی کہ وہ دس ذوالحجہ کو کنکریاں ماریں، پھر دوسرے اور تیسرے روز کنکریاں ماریں، پھر کوچ کے روز بھی ماریں۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۹۷۵۔ سنن ترمذي، رقم : ۹۵۵۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۳۰۳۷) لیکن بغیر عذر کے منیٰ سے باہر رات گزارنا درست نہیں ہے۔ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایام تشریق میں منیٰ میں راتیں گزارنا واجب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (شرح مسلم للنووی: ۵؍ ۲۰۰)
تخریج : انظر ما قبله ۔ منیٰ کے ایام (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ) جن میں حاجی منیٰ میں رہتے ہیں، ان ایام کی راتیں منی میں گزارنی چاہئیں۔ لیکن اگر عذر مجبوری ہو تو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے میں رخصت ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، اسی طرح سیّدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی کہ وہ دس ذوالحجہ کو کنکریاں ماریں، پھر دوسرے اور تیسرے روز کنکریاں ماریں، پھر کوچ کے روز بھی ماریں۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۹۷۵۔ سنن ترمذي، رقم : ۹۵۵۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۳۰۳۷) لیکن بغیر عذر کے منیٰ سے باہر رات گزارنا درست نہیں ہے۔ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایام تشریق میں منیٰ میں راتیں گزارنا واجب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (شرح مسلم للنووی: ۵؍ ۲۰۰)