مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 36

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: شَيْخٌ زَانٍ وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 36

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ کلام کرے گا نہ قیامت کے دن ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ ہی ان کا تزکیہ کرے گا جبکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور غرور کرنے والا مفلس۔‘‘
تشریح : (۱) معلوم ہوا مجرم کی حیثیت سے گناہ کی نوعیت بڑھ جاتی ہے، حالانکہ تکبر، جھوٹ اور زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ لیکن اگر بوڑھا زنا کرے تو جرم بڑھ جاتا ہے، کیونکہ اس کو تو قبر وقیامت کی فکر کرنی چاہیے اور پھر اس عمر میں بنسبت جوانی انسان کی خواہشات بھی کم پڑ جاتی ہیں، اس کے باوجود یہ زنا کرے تو مطلب یہ ہوا کہ اس کا مزاج بہت زیادہ بگڑا ہوا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کا دل بالکل خالی ہے۔ حالانکہ اللہ ذوالجلال نے مومنوں کی یہ صفتیں بیان کی ہیں کہ: ﴿وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ﴾ (الفرقان: ۶۸).... ’’وہ نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (الاحزاب:۳۵)....’’اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور بکثرت یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (۲) جھوٹا بادشاہ:.... اس کا بھی گناہ بہت بڑا ہے، کیونکہ وہ ہر طرح کے اختیارات اور وسائل سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور اس پر کسی کا دباؤ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود جھوٹ بولے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ ذوالجلال کا خوف نہیں ہے۔ (۳).... تکبر کرنا بہت بڑا جرم ہے، ایسے لوگوں کو اللہ ذوالجلال پسند نہیں کرتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ﴾ (النسآء: ۳۶) ’’یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ لیکن اگر یہ تکبر فقیر اور نادار کرے تو اس کا گناہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ تکبر اس لیے آتا ہے جب آدمی کے پاس مال و دولت آتی ہے اور یہ ان اسباب سے محروم ہونے کے باوجود غرور کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دل میں اللہ کا خوف ہی نہیں ہے، اس لیے مالدار آدمی کی بنسبت اس کا اظہار کبر زیادہ بدتر ہے۔
تخریج : مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار الخ، رقم: ۱۰۷۔ سنن نسائي، رقم: ۲۵۷۵۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۸۰۔ (۱) معلوم ہوا مجرم کی حیثیت سے گناہ کی نوعیت بڑھ جاتی ہے، حالانکہ تکبر، جھوٹ اور زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ لیکن اگر بوڑھا زنا کرے تو جرم بڑھ جاتا ہے، کیونکہ اس کو تو قبر وقیامت کی فکر کرنی چاہیے اور پھر اس عمر میں بنسبت جوانی انسان کی خواہشات بھی کم پڑ جاتی ہیں، اس کے باوجود یہ زنا کرے تو مطلب یہ ہوا کہ اس کا مزاج بہت زیادہ بگڑا ہوا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کا دل بالکل خالی ہے۔ حالانکہ اللہ ذوالجلال نے مومنوں کی یہ صفتیں بیان کی ہیں کہ: ﴿وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ﴾ (الفرقان: ۶۸).... ’’وہ نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (الاحزاب:۳۵)....’’اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور بکثرت یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (۲) جھوٹا بادشاہ:.... اس کا بھی گناہ بہت بڑا ہے، کیونکہ وہ ہر طرح کے اختیارات اور وسائل سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور اس پر کسی کا دباؤ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود جھوٹ بولے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ ذوالجلال کا خوف نہیں ہے۔ (۳).... تکبر کرنا بہت بڑا جرم ہے، ایسے لوگوں کو اللہ ذوالجلال پسند نہیں کرتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ﴾ (النسآء: ۳۶) ’’یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ لیکن اگر یہ تکبر فقیر اور نادار کرے تو اس کا گناہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ تکبر اس لیے آتا ہے جب آدمی کے پاس مال و دولت آتی ہے اور یہ ان اسباب سے محروم ہونے کے باوجود غرور کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دل میں اللہ کا خوف ہی نہیں ہے، اس لیے مالدار آدمی کی بنسبت اس کا اظہار کبر زیادہ بدتر ہے۔