كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اَبِی زِیَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُهٗ حَجَّاجًا، فَقَالَ: یَا اَیُّهَا النَّاسُ، احَلُّوْا اِلَّا مَنْ کَانَ مَعَهٗ هَدْیٌ فَاِنِّیْ لَوْ اِسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا صَنَعْتُ هَذَا، دَخَلَتِ العمرة فِی الْحَجِّ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب حج کرنے تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! احرام کھول دو، الا یہ کہ جس کے پاس قربانی کا جانور ہو، جس چیز کا مجھے اب علم ہوا ہے اگر میں اسے پہلے جان لیتا تو میں یہ نہ کرتا، عمرہ قیامت کے دن تک کے لیے حج میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘
تشریح :
حج کی تین اقسام ہیں: (۱).... حج تمتع۔ (۲).... حج قران۔ (۳).... حج افراد
(۱).... حج تمتع سے مراد ہے حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ میں داخل ہونا۔ عمرہ کرکے احرام کھول دینا اور پھر غیر محرم ہی رہنا حتی کہ ایام حج میں حج کرنا، اس میں قربانی کرنا ضروری ہے۔
(۲).... حج قران سے مراد میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا، لیکن سعی کے بعد نہ بال اتروانا اور نہ ہی احرام کھولنا۔ بلکہ حالت احرام میں ہی اعمال حج مکمل کرنا ہے۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ اور جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھے۔ قربانی اگر ساتھ لے جائے تو بہتر ہے کیونکہ یہی مسنون طریقہ ہے اور اس میں تین طواف: طواف عمرہ، طواف حج اور طواف وداع۔ اور دو سعی: سعی عمرہ اور سعی حج ضروری ہیں۔
(۳).... حج افراد سے مراد حج مفرد ہے۔ حج مفرد میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سر انجام دینے کو کہتے ہیں اور عمرہ مفردہ میقات سے صرف عمرے کے قصد سے احرام باندھ کر عمرے کے تمام افعال سے فراغت حاصل کرنا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قران کیا ہے لیکن حج تمتع کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ امام مالک اور امام احمد ; کا موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ ( فتح الباري: ۴؍ ۲۱۶۔ کتاب الام: ۲؍ ۳۱۲۔ المغنی: ۵؍ ۸۲)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۳۱۷)
مولانا صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ (الروضة الندیة: ۱؍ ۵۹۴)
یہ بھی معلوم ہوا حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔ اس کی وضاحت پیچھے گزر چکی ہے۔
تخریج :
انظر ما قبله ۔
حج کی تین اقسام ہیں: (۱).... حج تمتع۔ (۲).... حج قران۔ (۳).... حج افراد
(۱).... حج تمتع سے مراد ہے حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ میں داخل ہونا۔ عمرہ کرکے احرام کھول دینا اور پھر غیر محرم ہی رہنا حتی کہ ایام حج میں حج کرنا، اس میں قربانی کرنا ضروری ہے۔
(۲).... حج قران سے مراد میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا، لیکن سعی کے بعد نہ بال اتروانا اور نہ ہی احرام کھولنا۔ بلکہ حالت احرام میں ہی اعمال حج مکمل کرنا ہے۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ اور جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھے۔ قربانی اگر ساتھ لے جائے تو بہتر ہے کیونکہ یہی مسنون طریقہ ہے اور اس میں تین طواف: طواف عمرہ، طواف حج اور طواف وداع۔ اور دو سعی: سعی عمرہ اور سعی حج ضروری ہیں۔
(۳).... حج افراد سے مراد حج مفرد ہے۔ حج مفرد میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سر انجام دینے کو کہتے ہیں اور عمرہ مفردہ میقات سے صرف عمرے کے قصد سے احرام باندھ کر عمرے کے تمام افعال سے فراغت حاصل کرنا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قران کیا ہے لیکن حج تمتع کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ امام مالک اور امام احمد ; کا موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ ( فتح الباري: ۴؍ ۲۱۶۔ کتاب الام: ۲؍ ۳۱۲۔ المغنی: ۵؍ ۸۲)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۳۱۷)
مولانا صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ (الروضة الندیة: ۱؍ ۵۹۴)
یہ بھی معلوم ہوا حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔ اس کی وضاحت پیچھے گزر چکی ہے۔