مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 35

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ﴾ [النمل: 89] ، قَالَ: ((هِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)) ، ﴿وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وَجُوهُهُمْ فِي النَّارِ﴾ [النمل: 90] ((وَهِيَ الشِّرْكُ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 35

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جس نے نیکی کی تو اس کے لیے اس سے بہتر ہے اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا: ’’اس سے ’’لا اله الا اللّٰه‘‘ مراد ہے۔‘‘ اور ’’جس نے گناہ کیا تو ان کو چہروں کے بل جہنم میں گرایا جائے گا۔‘‘ (وہ گناہ) شرک ہے۔‘‘
تشریح : (۱).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی آیت: ﴿مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْهَا.... الخ﴾ سے مراد لا اله الا اللّٰه ہے۔ معلوم ہوا کہ کلمہ توحید کی بڑی فضیلت ہے جس کی بدولت بندہ میدانِ محشر میں ہر قسم کی گھبراہٹ سے محفوظ ہو جائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَ تَتَلَقّٰهُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ﴾ (الانبیاء: ۱۰۳)’’وہ بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔‘‘ (۲).... یہ بھی معلوم ہوا کہ: ﴿وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ﴾ (النمل: ۹۰) سے مراد شرک کرنے والے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔ دوسری جگہ پر ارشاد باری ہے:﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ (النسآء: ۴۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ ذوالجلال کا حق انسان دوسرے کو دیتا ہے اس لیے ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تخریج : مستدرك حاکم: ۲؍ ۴۴۱۔ اسناده صحیح۔ (۱).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی آیت: ﴿مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْهَا.... الخ﴾ سے مراد لا اله الا اللّٰه ہے۔ معلوم ہوا کہ کلمہ توحید کی بڑی فضیلت ہے جس کی بدولت بندہ میدانِ محشر میں ہر قسم کی گھبراہٹ سے محفوظ ہو جائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَ تَتَلَقّٰهُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ﴾ (الانبیاء: ۱۰۳)’’وہ بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔‘‘ (۲).... یہ بھی معلوم ہوا کہ: ﴿وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ﴾ (النمل: ۹۰) سے مراد شرک کرنے والے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔ دوسری جگہ پر ارشاد باری ہے:﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ (النسآء: ۴۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ ذوالجلال کا حق انسان دوسرے کو دیتا ہے اس لیے ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔