مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 34

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَلِكَ حِينَ ﴿لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا﴾ [الأنعام: 158] ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 34

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہو جائے، پس جب یہ صورت ہوگی تو اس وقت اس (روئے زمین) پر موجود ہر شخص ایمان لے آئے گا، پس یہ وہ وقت ہوگا۔ جب کسی نفس کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہوگا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا اس نے حالت ایمان میں کوئی نیکی نہیں کی ہوگی۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک وقت ایسا آئے گا جب سورج مشرق کی بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا اور اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ ایمان تو وہی مفید اور مقبول ہے جو موت کے منہ میں جانے سے پہلے لایا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ (یہ) سورج غروب ہونے کے بعد کہاں منتقل ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آفتاب گردش کرتے کرتے عرش بریں کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ کر (اللہ کے حضور) سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ پس وہ اسی حالت پر رہتا ہے یہاں تک اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ اور لوٹ جا، جہاں سے تو آیا تھا۔ چنانچہ وہ سر اٹھائے لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر وہ چل نکلتا ہے اور گردش کرتے کرتے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر (اللہ کے حضور) سجدہ ریز ہو جاتا ہے، پھر اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ اور اپنے مطلع سے طلوع ہو، چنانچہ وہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے طلوع ہوگا۔‘‘ یہ ساری کیفیت بیان کرنے کے بعد آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ سورج اپنے مطلع سے کب طلوع ہوگا؟ یہ اس وقت ہوگا جب کسی متنفس کے لیے اس کا ایمان قبول کر لینا سود مند نہ ہوگا کیونکہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے نہ تو وہ ایمان لایا تھا اور نہ ہی اپنے ایمان سے کسی اچھائی کو حاصل کیا تھا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۳۹۹)
تخریج : بخاري، کتاب التفسیر، باب لا ینفع نفسا ایمانها، رقم: ۳۶۳۵۔ مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الزمن الذي لا یقبل فیه الایمان، رقم: ۱۵۷۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۳۱۳۔ سنن ترمذي، رقم: ۳۰۷۲۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۲۷۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک وقت ایسا آئے گا جب سورج مشرق کی بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا اور اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ ایمان تو وہی مفید اور مقبول ہے جو موت کے منہ میں جانے سے پہلے لایا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ (یہ) سورج غروب ہونے کے بعد کہاں منتقل ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آفتاب گردش کرتے کرتے عرش بریں کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ کر (اللہ کے حضور) سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ پس وہ اسی حالت پر رہتا ہے یہاں تک اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ اور لوٹ جا، جہاں سے تو آیا تھا۔ چنانچہ وہ سر اٹھائے لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر وہ چل نکلتا ہے اور گردش کرتے کرتے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر (اللہ کے حضور) سجدہ ریز ہو جاتا ہے، پھر اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ اور اپنے مطلع سے طلوع ہو، چنانچہ وہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے طلوع ہوگا۔‘‘ یہ ساری کیفیت بیان کرنے کے بعد آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ سورج اپنے مطلع سے کب طلوع ہوگا؟ یہ اس وقت ہوگا جب کسی متنفس کے لیے اس کا ایمان قبول کر لینا سود مند نہ ہوگا کیونکہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے نہ تو وہ ایمان لایا تھا اور نہ ہی اپنے ایمان سے کسی اچھائی کو حاصل کیا تھا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۳۹۹)