مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 33

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ: ((سَلُونِي)) فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ حَتَّى وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ ((وَيُؤْمِنُ بِالْبَعْثِ وَبِالْقَدَرِ كُلِّهِ)) ، وَيَقُولُ فِي كُلِّ مَسْأَلَةٍ: صَدَقْتَ، وَقَالَ: ((إِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكُمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ، وَرَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ،)) وَقَالَ فِيهِ: ((أَنْ تَخْشَى اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ)) ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ((هَذَا جِبْرِيلُ)) ، قَالَ: أَبُو زُرْعَةَ أَرَادَ أَنْ تَعْلَمُوا أَنْ تَسْأَلُوهُ.

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 33

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ پس وہ اس بات سے ڈرے کہ وہ آپ سے پوچھیں، ایک آدمی آیا تو اس نے اپنے ہاتھ آپ کے گھٹنوں پر رکھ دئیے تو کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ایمان کے متعلق بتائیں، پس راوی نے حدیث سابق کے مثل ذکر کیا، اور یہ اضافہ نقل کیا: ’’اور تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ اور ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ اور وہ آپ سے جو بھی سوال کرتا تو کہتا: تم نے سچ کہا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ننگے بدن، ننگے قدم، بہرے، گونگے (مانند جانور) افراد کو زمین؍ ملک کا مالک دیکھو، اور تم جانوروں کے چرواہوں کو تعمیرات میں باہم فخر کرتے ہوئے دیکھو۔‘‘ اس حدیث میں یہ بیان کیا: ’’یہ کہ تم اللہ سے ڈرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ اور حدیث میں بیان کیا: ’’یہ جبریل ہیں۔‘‘ ابو زرعہ نے بیان کیا: آپ نے چاہا کہ انہیں تعلیم دی جائے کہ وہ آپ سے سوال کریں۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے علماء سے مسئلہ پوچھنے کے آداب سمجھ آتے ہیں۔ (۱) .... مسئلہ قریب بیٹھ کر دریافت کیا جائے۔ (۲).... معلوم ہوا اساتذہ یا امراء کے لیے دوسروں سے نمایاں جگہ بنانا جائز ہے۔ (۳).... معلوم ہوا طالب علم کا لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے اور اپنے استاد کے سامنے عاجزی سے بیٹھنا چاہیے۔ (۴).... سیدنا جبریل رضی اللہ عنہ نے جب اسلام کے بارے میں پوچھا تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظاہری امور کے بارے میں بتایا اور جب انہوں نے ایمان کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں باطنی امور کے متعلق بتایا اسلام اور ایمان کے الفاظ اگر اکٹھے ذکر کیے جائیں تو ان کے معنی میں فرق ہوتا ہے چونکہ (اسلام وایمان) یہاں اکٹھے مذکور ہیں۔ لہٰذا اسلام کی تفسیر ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ اور یہی اسلام کے معنی سے مناسبت ہے۔ اسلام اللہ کے لیے سرتسلیم خم کر دینے اور فرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کی تفسیر باطنی امور سے کی گئی ہے اور یہ اس کے معنی سے مناسب ہے۔ (دل، زبان اور عمل سے) تصدیق واقرار کو ایمان کہتے ہیں جب اسلام اور ایمان کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا جائے تو ظاہری و باطنی امور کے دونوں معنی مراد ہوتے ہیں۔ اسلام کا علیحدہ ذکر اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْاٰخِرَوِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’جس نے اسلام کے سوا دوسرا دین چاہا تو اس سے وہ (دین) ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ ایمان کا علیحدہ ذکر اس آیت میں آیا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (المآئدۃ: ۵) ’’جس نے ایمان کے ساتھ کفر کیا تو اس کا (ہر) عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ (۵) احسان:.... علامہ ابن رجب رحمہ اللہ احسان کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ) ’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اس میں اشارہ ہے کہ (احسان والا) بندہ اس صفت پر اللہ کی عبادت کرتا ہے اور یہ اس کی قربت کا استحضار (حاضر کرنا) ہے اور یہ کہ وہ اس کے سامنے ہے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس سے خشیت، خوف، ہیبت اور تعظیم پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں آیا ہے: ((اَنْ تَخْشَی اللّٰهَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ۔)).... ’’تو اللہ سے ڈرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اور اس سے یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ عبادت میں خیر خواہی اس کی تحسین، اتمام اور اکمال میں پوری کوشش ہو۔ (جامع العلوم والحکم: ۱؍ ۱۲۶) (۶) قیامت کا علم: .... اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمان: ۳۴) ’’بے شک قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ﴾ (الاعراف: ۱۸۷)....’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب آئے گی؟ آپ کہہ دیجئے: اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے۔‘‘ قیامت کے متعلق تو علم اللہ ذوالجلال کو ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ علامات بتلائی ہیں اور اسی طرح یہ بھی بتلایا ہے کہ جمعہ والے دن آئے گی، لیکن کس مہینے اور کس سال آئے گی یہ نہیں بتلایا۔ مذکورہ بالاحدیث میں دو نشانیوں کا تذکرہ ہے۔ (۷).... ننگے پیر ننگے بدن، غریب چرواہے (اونچی) کوٹھیوں میں غرور کریں گے۔ (اور اترائیں گے) کامعنی یہ ہے کہ غریب لوگ جو بکریاں چراتے تھے اور پہننے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان کے احوال بدل جائیں گے، وہ شہروں میں سکونت پذیر ہو کر (بڑی بڑی) کوٹھیوں میں فخرو غرور کریں گے۔ (اور اترائیں گے) (۸) لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی:.... مطلب یہ کہ کثرت سے فتوحات ہوں گی اور بہت سے غلام بنائے جائیں گے، بعض لونڈیوں میں سے ایسی بھی ہوں گی جن کا آقا ان سے ہم بستری کرے گا تو ان کی اولاد ہوگی، وہ لونڈی ام ولد (اولاد کی ماں) بن جائے گی اور اس کی اولاد اس کے آقا کے مقام پر ہوگی، جیسا کہ تاریخ گواہ ہے بڑے بڑے امراء لونڈیوں کی اولاد میں سے تھے یا اولاد اپنی ماں کی نافرمانی کرے گی اور ان پر غالب ہو جائے گی، حتیٰ کہ اولاد اس مقام پر پہنچ جائے گی گویا وہ اپنے ماں باپ کے آقا ہیں۔ (دیکھئے فتح الباري: ۱ ؍۱۲۳)
تخریج : مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الایمان، والاسلام الخ، رقم: ۱۰۔ مذکورہ حدیث سے علماء سے مسئلہ پوچھنے کے آداب سمجھ آتے ہیں۔ (۱) .... مسئلہ قریب بیٹھ کر دریافت کیا جائے۔ (۲).... معلوم ہوا اساتذہ یا امراء کے لیے دوسروں سے نمایاں جگہ بنانا جائز ہے۔ (۳).... معلوم ہوا طالب علم کا لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے اور اپنے استاد کے سامنے عاجزی سے بیٹھنا چاہیے۔ (۴).... سیدنا جبریل رضی اللہ عنہ نے جب اسلام کے بارے میں پوچھا تو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظاہری امور کے بارے میں بتایا اور جب انہوں نے ایمان کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں باطنی امور کے متعلق بتایا اسلام اور ایمان کے الفاظ اگر اکٹھے ذکر کیے جائیں تو ان کے معنی میں فرق ہوتا ہے چونکہ (اسلام وایمان) یہاں اکٹھے مذکور ہیں۔ لہٰذا اسلام کی تفسیر ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ اور یہی اسلام کے معنی سے مناسبت ہے۔ اسلام اللہ کے لیے سرتسلیم خم کر دینے اور فرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کی تفسیر باطنی امور سے کی گئی ہے اور یہ اس کے معنی سے مناسب ہے۔ (دل، زبان اور عمل سے) تصدیق واقرار کو ایمان کہتے ہیں جب اسلام اور ایمان کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا جائے تو ظاہری و باطنی امور کے دونوں معنی مراد ہوتے ہیں۔ اسلام کا علیحدہ ذکر اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْاٰخِرَوِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’جس نے اسلام کے سوا دوسرا دین چاہا تو اس سے وہ (دین) ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ ایمان کا علیحدہ ذکر اس آیت میں آیا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (المآئدۃ: ۵) ’’جس نے ایمان کے ساتھ کفر کیا تو اس کا (ہر) عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ (۵) احسان:.... علامہ ابن رجب رحمہ اللہ احسان کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ) ’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اس میں اشارہ ہے کہ (احسان والا) بندہ اس صفت پر اللہ کی عبادت کرتا ہے اور یہ اس کی قربت کا استحضار (حاضر کرنا) ہے اور یہ کہ وہ اس کے سامنے ہے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس سے خشیت، خوف، ہیبت اور تعظیم پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں آیا ہے: ((اَنْ تَخْشَی اللّٰهَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ۔)).... ’’تو اللہ سے ڈرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اور اس سے یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ عبادت میں خیر خواہی اس کی تحسین، اتمام اور اکمال میں پوری کوشش ہو۔ (جامع العلوم والحکم: ۱؍ ۱۲۶) (۶) قیامت کا علم: .... اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمان: ۳۴) ’’بے شک قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ﴾ (الاعراف: ۱۸۷)....’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب آئے گی؟ آپ کہہ دیجئے: اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے۔‘‘ قیامت کے متعلق تو علم اللہ ذوالجلال کو ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ علامات بتلائی ہیں اور اسی طرح یہ بھی بتلایا ہے کہ جمعہ والے دن آئے گی، لیکن کس مہینے اور کس سال آئے گی یہ نہیں بتلایا۔ مذکورہ بالاحدیث میں دو نشانیوں کا تذکرہ ہے۔ (۷).... ننگے پیر ننگے بدن، غریب چرواہے (اونچی) کوٹھیوں میں غرور کریں گے۔ (اور اترائیں گے) کامعنی یہ ہے کہ غریب لوگ جو بکریاں چراتے تھے اور پہننے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان کے احوال بدل جائیں گے، وہ شہروں میں سکونت پذیر ہو کر (بڑی بڑی) کوٹھیوں میں فخرو غرور کریں گے۔ (اور اترائیں گے) (۸) لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی:.... مطلب یہ کہ کثرت سے فتوحات ہوں گی اور بہت سے غلام بنائے جائیں گے، بعض لونڈیوں میں سے ایسی بھی ہوں گی جن کا آقا ان سے ہم بستری کرے گا تو ان کی اولاد ہوگی، وہ لونڈی ام ولد (اولاد کی ماں) بن جائے گی اور اس کی اولاد اس کے آقا کے مقام پر ہوگی، جیسا کہ تاریخ گواہ ہے بڑے بڑے امراء لونڈیوں کی اولاد میں سے تھے یا اولاد اپنی ماں کی نافرمانی کرے گی اور ان پر غالب ہو جائے گی، حتیٰ کہ اولاد اس مقام پر پہنچ جائے گی گویا وہ اپنے ماں باپ کے آقا ہیں۔ (دیکھئے فتح الباري: ۱ ؍۱۲۳)