مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 312

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ جَرِيرٍ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 312

اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب یزید بن ابی زیاد نے اسی اسناد سے حدیث جریر کے مثل روایت کیا۔
تشریح : دس ذوالحجہ قربانی کے دن منی پہنچ کر سب سے پہلے کنکریاں مارنی چاہئیں، پھر قربانی کرنی چاہیے، پھر حجامت بنوانی چاہیے اور اس کے بعد مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرنا چاہیے۔ افضل تو یہ ہے کہ ترتیب کا خیال رکھا جائے لیکن اگر ترتیب نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، جمرہ عقبہ پر رمی کرنا واجب ہے۔ اگر کسی صورت میں رمی نہ کی جاسکے تو ایک جانور قربانی کرنا واجب ہوگا اور جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کا افضل وقت طلوع آفتاب کے بعد چاشت کا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں مت مارو۔ ‘‘ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۷۱۰۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۳۰۲۵) اور کنکریاں مارتے وقت تک تلبیہ بھی کہتے رہنا چاہیے، کنکریاں مارتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون ہے۔ جیسا کہ سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ ( سنن نسائي، کتاب المناسک، باب التکبیر، اسناده صحیح) ساتوں کنکریاں الگ الگ مارنی چاہئیں، کنکریاں بالکل چھوٹی ہونی چاہئیں۔ کیونکہ خذف کا معنی انگلیوں (کے پوروں) سے کنکر پھینکنا (جو کہ تقریباً لوہے کے دانے کے برابر ہو) ہے۔ (المنجد، ص:۱۹۷) بڑی کنکریاں پھینکنا یا جوتوں کے ساتھ مارنا درست نہیں ہے۔
تخریج : انظر ما قبله۔ دس ذوالحجہ قربانی کے دن منی پہنچ کر سب سے پہلے کنکریاں مارنی چاہئیں، پھر قربانی کرنی چاہیے، پھر حجامت بنوانی چاہیے اور اس کے بعد مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرنا چاہیے۔ افضل تو یہ ہے کہ ترتیب کا خیال رکھا جائے لیکن اگر ترتیب نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، جمرہ عقبہ پر رمی کرنا واجب ہے۔ اگر کسی صورت میں رمی نہ کی جاسکے تو ایک جانور قربانی کرنا واجب ہوگا اور جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کا افضل وقت طلوع آفتاب کے بعد چاشت کا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں مت مارو۔ ‘‘ (صحیح ابوداود، رقم : ۱۷۱۰۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۳۰۲۵) اور کنکریاں مارتے وقت تک تلبیہ بھی کہتے رہنا چاہیے، کنکریاں مارتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون ہے۔ جیسا کہ سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ ( سنن نسائي، کتاب المناسک، باب التکبیر، اسناده صحیح) ساتوں کنکریاں الگ الگ مارنی چاہئیں، کنکریاں بالکل چھوٹی ہونی چاہئیں۔ کیونکہ خذف کا معنی انگلیوں (کے پوروں) سے کنکر پھینکنا (جو کہ تقریباً لوہے کے دانے کے برابر ہو) ہے۔ (المنجد، ص:۱۹۷) بڑی کنکریاں پھینکنا یا جوتوں کے ساتھ مارنا درست نہیں ہے۔