مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 31

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، نا أَبُو فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي ذَرٍّ قَالَا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ فَلَا يَعْرِفُهُ وَلَا يَدْرِي أَيْنَ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ جَعَلْنَا لَكَ مَجْلِسَا فَتَجْلِسَ فِيهِ حَتَّى يَعْرِفَكَ الْغَرِيبُ، فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ فَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَانِبَيْهِ، فَكُنَّا جُلُوسًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِيءُ فِي مَجْلِسِهِ، إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ أَحْسَنُ النَّاسِ وَجْهَا وَأَطْيَبُ النَّاسِ رِيحًا وَأَنْقَى النَّاسِ ثَوْبًا، كَأَنَّ ثِيَابَهُ لَمْ يُصِبْهَا دَنَسٌ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ عِنْدِ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ: أَدْنُو؟ فَمَا زَالَ يَقُولُ: أَدْنُو؟ وَيَقُولُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((ادْنُهْ)) حَتَّى وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: ((تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ)) ، قَالَ: إِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ)) ، فَقَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَنْكَرْنَا مِنْهُ قَوْلَهُ صَدَقْتَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَبِالنَّبِيِّينَ وَبِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، فَقَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: فَنَكَسَ وَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ عَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ عَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَحَلَفَ بِهِ بِاللَّهِ أَوْ قَالَ: ((وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ، مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ لَهَا عَلَامَاتٌ تُعْرَفُ بِهَا، إِذَا رَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ وَالْعُرَاةَ مُلُوكَ الْأَرْضِ، وَإِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّهَا فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ)) ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ [لقمان: 34] ، ثُمَّ تَلَا إِلَى: ﴿عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ [لقمان: 34] ، ثُمَّ سَطَعَ غُبَارٌ مِنَ السَّمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ مَا أَنَا بِأَعْلَمَ بِهِ مِنْ رَجُلٍ مِنْكُمْ وَإِنَّهُ لَجِبْرِيلُ جَاءَكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ فِي صُورَةِ دَحْيَةَ الْكَلْبِيِّ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 31

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامy کے درمیان تشریف فرما ہوے تھے، پس اجنبی شخص آتا تو وہ آپ کو پہچانتا نہ اسے پتہ چلتا کہ آپ کہاں ہیں حتیٰ کہ وہ دریافت کرتا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہم آپ کے لیے نشست بنا دیں تاکہ آپ اس پر تشریف رکھا کریں حتیٰ کہ اجنبی شخص آپ کو پہچان سکے، ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ بنا دیا، ہم آپ کے دونوں جانب بیٹھا کرتے تھے، ہم بیٹھے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں تشریف لائے کہ اچانک ایک خوبصورت شخص بہترین خوشبو لگائے انتہائی صاف ستھرا لباس زیب تن کیے ہوئے آیا اس کا لباس اس طرح تھا جیسا کہ میل کچیل نے اسے چھوا تک نہ ہو، حتیٰ کہ اس نے لوگوں کی صف کے کنارے سے سلام کیا تو اس نے کہا: السلام علیک یا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر اس نے کہا: کیا میں قریب آجاؤں؟ وہ قریب آنے کے لیے کہتا ہی رہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’اسے قریب کرو۔‘‘ حتیٰ کہ اس نے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیا تو کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: جب میں یہ سب بجا لاؤں گا تو میں نے اسلام قبول کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ راوی نے بیان کیا: ہمیں اس کی یہ بات پسند نہ آئی کہ آپ نے سچ فرمایا (کیونکہ وہ سائل تھا) اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ایمان کے متعلق بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ پر، فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر، انبیاء(علیہم السلام) پر اور ہر قسم کی تقدیر پر ایمان (لاؤ)۔‘‘ اس نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! احسان کے متعلق بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا لیا اور اسے جواب نہ دیا، اس نے پھر دوبارہ پوچھا لیکن آپ نے اسے جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال دہرایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہ دیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا، اللہ کی قسم اٹھائی یا فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اس (قیامت) کے متعلق مسؤل (جس سے پوچھا جا رہا ہے) سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ لیکن اس کی کچھ علامتیں ہیں جن سے اس کی معرفت ہو سکتی ہے۔ جب تم جانوروں کے چرواہوں کو دیکھو کہ وہ بڑی بڑی عمارتوں کے بارے میں غرور کریں گے اور جب تم ننگے پاؤں اور ننگے بدن والوں کو ملک کے بادشاہ دیکھو گے اور جب عورت اپنے مالک؍ آقا کو جنم دے گی، غیب کے متعلق پانچ چیزیں ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے اور رحم مادر میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے.... علم والا باخبر ہے۔‘‘ پھر آسمان سے غبار بلند ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں تم میں سے کسی شخص سے زیادہ اس کے متعلق نہیں جانتا، وہ جبریل تھے، دحیہ کلبی ( رضی اللہ عنہ ) کی صورت میں تمہیں تعلیم دینے تمہارے پاس آئے تھے۔‘‘
تخریج : سنن ابي داود، کتاب السنة، باب فی القدر، رقم: ۴۶۹۸۔ قال الشیخ الالباني صحیح۔ سنن نسائي، کتاب الایمان وشرائعه، باب صفة الایمان والاسلام، رقم: ۴۹۹۱۔ نسائي کبرىٰ، رقم: ۵۹۷۴۔